کروڑوں روپیوں کی گرانٹ جاری کرنے کے باوجود 2411 اسکولوں کے حالت خستہ
بنگلورو،5؍ مئی (ایس او نیوز) ریاست میں سرکاری اسکولوں کی چھٹیاں ختم ہونے آرہی ہیں ، دوسری جانب اساتذہ سرکاری اسکولوں میں طلباء کو راغب کرنے کے لئے نت نئے منصوبے رائج کرنے کے لئے غور کر رہے ہیں مگر ریاست میں تقریباً 2411کمرے خستہ حال ہونے کی رپورٹ موصول ہوئی ہے ۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کبھی بھی اور کسی بھی وقت یہ عمارتیں گر سکتی ہیں ۔ محکمہ تعلیم کے افسروں کے ذریعے ایک رپورٹ تیار کی گئی ہے ، ساتھ ہی ایک ایکشن پلان تیار بھی کیا ہے جس میں کہا جا رہا ہے کہ ریاست میں 1533پرائمری اور 888 ہائی اسکول کے کمرے ، کلاسس چلانے کے قابل نہیں ہیں ۔ خستہ حال عمارتوں کو منہدم کرکے نئی عمارتیں تعمیر کرنے کے لئے حکومت نے گرانٹ جاری کیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ تعلیمی سال کے آغاز ہونے سے قبل کیا سرکاری اسکولوں کی عمارتیں تعمیر ہوجائیں گی مگر آفسروں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے ۔ ایک کمرے کی تعمیر کے لئے حکومت نے 10.60لاکھ تخمینہ مقرر کرکے 162.44کروڑ روپیوں کا منصوبہ بنایا ہے ۔ اس ضمن میں دو مرحلے میں گرانٹ بھی جاری کیا ہے ۔ مگر پتہ چلا ہے کہ چند مقامات پر صرف بوسیدہ عمارتیں ڈھا دی گئی ہیں مگر آج تک کوئی کام نہیں ہواہے ۔ معاشرے میں بچوں کو بلاتفریق مذہب و ملت معیاری تعلیم دینے کے مقصد سے حکومت کروڑوں روپئے خرچ کرنے کا دعویٰ کرتی ہے مگر آج بھی ریاست کے بیشتر دیہی علاقوں میں سرکاری اسکول کی عمارتیں کافی خراب ہیں جس کو دیکھ کر والدین اپنے بچوں کو مجبوراً نجی اسکولوں میں داخلہ دلوا کر بچوں کا مستقبل تابناک بنانے کی سوچ رہے ہیں ۔ پتہ چلا ہے کہ سروسکشنا ابھیان منصوبے اور آر ایم ایس اے منصوبے کے تحت اسکول کے کمرے تعمیر کرنے کے لئے گرانٹ جاری کرنا روک دیا ہے جس کے سبب بچوں کی تعلیمی ترقی پر مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔ اسکولوں کی ترقی کے لئے مرکزی اور ریاستی حکومتیں دیکھ بھال کے اخراجات سالانہ جاری کرتے ہیں مگر امسال اس کو جاری نہیں کیا گیا ہے جس کے سبب اسکولوں کو رنگ و روغن ، بجلی بل کی ادائیگی و دیگر سہولتیں حاصل کرنے سے اسکول کے طلباء اور اساتذہ محروم ہیں ۔ مرکزی اور ریاستی حکومتیں 50-50 کے تناسب سے گرانٹ جاری کرتے ہیں مگر اب تک 90 کروڑ روپئے جاری ہونا چاہئے تھا ، اب تک نہیں ہوا ۔ اس کے علاوہ سرکاری اسکول میں زیر تعلیم بچوں کو معیاری تعلیم دینے کے مقصد سے ایک اچھا پاک و صاف ماحول بنانے کے علاوہ اسکولوں کے لئے درکار فرنیچر (ڈیسک، بنچ، کرسیاں ) خریدنے کے لئے حکومت نے گرانٹ روک دیا ہے ۔ ہائی اسکولوں کے لئے طلباء کے تناسب سے 10 تا 15 ہزار روپئے گرانٹ دیا جاتا ہے مگر پرائمری اسکولوں کی ترقی کو نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔ طلباء آج بھی ٹوٹے پھوٹے بنچ اور ڈسکوں پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ حکومت سرکاری اسکولوں میں بنیادی طور پر پینے کے لئے پانی اور طلباء کو بیت الخلاء کیلئے پانی کی سربراہی کو یقینی بنانے کے لئے خصوصی توجہ دینے کا دعویٰ کرتی ہے ۔ لیکن بیت الخلاء کی تعمیر کے لئے گرانٹ دینا روک دیا صرف سوچھ بھارت منصوبے کے تحت رقم جاری کی جارہی ہے مگر آج بھی کئی اسکولوں میں بیت الخلاء موجود نہیں ہیں ، اگر کہیں موجود ہیں تو لڑکیوں اور لڑکو ںکے لئے علاحدہ علاحدہ نہیں ہیں ۔ بیت الخلاء کی نگرانی کے لئے پرائمری اسکولوں کے لئے 3000روپئے ، ہائی اسکولوں کے لئے5000روپئے جاری کی جاتی تھی مگر گذشتہ دو سالوں سے اس رقم کو جاری نہیں کیا ہے ۔ اس کی نگرانی کس طرح کی جاسکتی ہے ایسا سوال اساتذہ کرنے لگے ہیں ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ سرکاری اسکول کا آغاز ہونے سے قبل ہی خستہ حالء عمارتوں کی جگہ عمدہ معیاری عمارتیں تعمیر کرنے کے علاوہ اسکولوں کے لئے درکار بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے توجہ دینے کی درخواست کی گئی ہے ۔