2002گجرات فسادات: جج پی بی دیسائی نے ثبوتوں کو نظر انداز کردیا: سابق IAS افسر و سماجی کارکن ہرش مندرکا انکشاف
نئی دہلی 10/جنوری (ایس او نیوز) خصوصی تفتیشی ٹیم عدالت کے جج پی ۔بی۔ دیسائی نے ان موجود ثبوتوں کو نظر انداز کیاکہ کانگریس ممبر اسمبلی احسان جعفری جنہیں ہجوم نے احمدآباد کی گلمرگ سوسائٹی میں فساد کے دوران قتل کردیا تھا انہوں نے مسلمانوں کو ہجوم سے بچانے اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی سے فساد پر قابو کرنے کے لئے ہر ممکنہ رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان باتوں کا انکشاف سماجی کارکن ہرش مندر نے کیا ہے۔ ہرش نے کہا کہ ’’ فاضل جج جو کہ دسمبر 2017میں سبکدوش ہوگئے انہوں نے اس بات کو نظر انداز کیا کہ جعفری نے مرنے سے قبل بطور ممبر اسمبلی اعلیٰ پولس افسران و دیگر ذمہ داران بشمول اُس وقت کے وزیر اعلیٰ مودی سے رابط کرنے کی بہت کوشش کی تھی اور فوج و پولس کے ذریعہ ہجوم کو قابو میں کرنے اور فسادیوں سے مسلمانوں کو بچانے کی درخواست کی تھی۔
خیال رہے کہ ہرش مندر نے گجرات میں فسادات کی وجہ سے احتجاجاً IASسے استعفیٰ دے دیا تھا، انہوں نے حال ہی میں اجراء شدہ اپنی کتاب ’’ Partitions of the Heart: Unmaking the Idea of India‘‘ میں اس طرح کے انکشافات کیے ہیں۔
66سالہ سماجی کارکن ہرش مندر جو فسادات کے ملزمین سمیت بھوکے و بے گھر افراد کے لئے کام کرتے ہیں نے انتقال کرجانے والے صحافی کلدیپ نیئر کی بات پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ جعفری نے شدت سے انہیں فون کیا تھا اور کسی بھی مناسب انتظامیہ سے رابط کرکے انہیں بچانے کے لئے پولس یا فوج کو بھیجنے کی التجاء کی تھی۔ ہرش نے کہا کہ کلدیپ نے مرکزی وزیر داخلہ کو فون کرکے حالات کی سنگینی کو پیش کیا تھا۔ وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ وہ ریاستی حکومت سے مستقل ربط میں ہیں اور حالات پر نظر بنائے ہوئے ہیں۔ جعفری نے دوبارہ فون کیااور کلدیپ سے التجاء کی کہ وہ ہجوم کو انہیں قتل کرنے سے روکنے کے لئے کچھ اقدامات کریں۔
کتاب کے ایک سبق ’’ Whatever happened in Gulberg Society‘‘ میں ہرش نے لکھا کہ جعفری نے ان لوگوں کی حفاظت کرنے کے لئے جو مانتے تھے کہ انکا اثر انہیں بچا سکتا ہے اپنی طاقت کی حد تک وہ سب کچھ کیاجو وہ کرسکتے تھے۔ ہرش نے کہا کہ جعفری نے ہجوم سے بھیک مانگی کہ وہ وہاں موجود مسلمانوں کی جان کے بدلے انکی جان لے لیں۔ہرش نے لکھا ہے کہ ’’ جب جعفری کو احساس ہوا کہ حکومت و انتظامیہ میں سے کوئی بھی انکی حفاظت کے لئے آنے والا نہیں ہے تو انہوں نے اپنی لائسنس والی بندوق اٹھائی اور حملہ کر رہے ہجوم پر گولی چلا دی‘‘۔
ہرش نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ جعفری کے حفاظت کے لئے گولی چلانے کے آخری عمل کو ناجائز عمل قرار دیتے ہوئے جج نے سنوائی کے دوران صرف مودی کی جانب سے لئے گئے اقدامات کا ڈھنڈورا پیٹا ، جنہوں نے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ جعفری نے پہلے ہجوم پر گولی چلائی تھی۔ ہرش نے کہا کہ ’’ وہ یہ کہنا بھول گئے کہ ہر شہری سے ہجوم کے اس عمل کے موقع پر یہی امید کی جاسکتی ہے، جس میں ہجوم نے پہلے ہی سے بہتوں کو ذبح کردیا تھا اور پولس نے جان بوجھ کر اس پر کوئی کاروائی نہیں کی تھی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ انکے نزدیک کیا ذبح کرنے والے ہجوم کی موجودگی میں جو قتل کرنے کی دھمکی دے رہا ہو اور جو تیزاب بم پھینک رہے ہوں تو وہاں پر موجود مظلوم مسلمانوں کو اپنی حفاظت کے لئے صرف درخواست ہی کرنا چاہیے تھا۔
کتاب کے مطابق احسان جعفری کی بیوی ذکیہ جعفری کو اس بات پر مکمل یقین ہے کہ انکے شوہر کو ایک سازش کے تحت مارا گیاجس میں مکمل انتظامیہ کا دخل ہے۔ہرش نے مزید کہا کہ فساد میں بچنے والوں نے جج کے سامنے پوری روداد سنائی لیکن جج دیسائی کو صرف اس بات پر یقین تھا کہ اس میں کوئی سازش نہیں تھی اور انتظامیہ نے اس فساد کو روکنے کے لئے وہ سب کچھ کیا جو کرسکتے تھے۔ہرش نے کتاب میں یہ بھی لکھا کہ احمدآباد میں بار بار فساد ہونے کی وجہ سے آبادی ہندو مسلم علاقوں میں بٹ گئی تھی۔ ہندو علاقوں میں گلبرگ آخری مسلم علاقہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ دیسائی نے تہلکہ رپورٹر کی جانب سے خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی گفتگوؤں کو بھی نظر انداز کیااور کہا کہ کسی کو بھی اسٹنگ آپریشن کی بنیاد پر ملزم نہیں ٹہرایا جا سکتا۔