زمبابوے، موگابے کا 37 سالہ اقتدار ختم، مواخذہ شروع ہوتے ہی مستعفی
ہرارے،22/نومبر(ایجنسی)زمبابوے کے صدر رابرٹ موگابے 37 برس تک اقتدار میں رہنے کے بعد مستعفی ہوگئے۔وہ اپنے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع ہوتے ہی اقتدار سے علیحدہ ہوگے۔برطانوی نیوز ایجنسی کے مطابق، رابرٹ موگابے کی جانب سے لکھے گئے ایک خط میں انھوں نےکہا کہ مستعفی ہونے کا فیصلہ رضاکارانہ طور پر کیا ہے تاکہ انتقال اقتدار کا عمل آرام سے مکمل ہو سکے۔زمبابوے کی پارلیمان کے اسپیکر جیکب مُڈینڈا نے ان کے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔ ان کے اس اچانک فیصلے کے نتیجے میں ان کے مواخذے کا عمل ختم ہوگیا۔ پارلیمنٹ نے منگل کے روز ان کے مواخذے کی کارروائی شروع کردی تھی ۔ اطلاعات کے مطابق، عوام کی ایک بڑی تعداد اور ارکان پارلیمنٹ ان کے استعفے کی خبر آنے کے بعد جشن مناتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ حکمراں جماعت نے اقتدار معزول نائب صدر کو منتقل کرنے کا اعلان کردیا ۔امریکا نے زمبابوے کی صورتحال پر اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ امیدہےکہ زمبابوےمیں شفاف اورغیرجانبدارانہ انتخابات ہوں گے۔ رابرٹ موگابے گزشتہ دنوں کی فوج کی بغاوت اور عوامی احتجاج کے تواتر کے باوجود مستعفی ہونے کیخلاف مزاحمت کررہے تھے۔صدر موگابے کی جانب سے چند روز قبل اپنے نائب صدر کو چند ہفتے قبل برطرف کیا جانا تھا۔ اس برطرفی سے یہ شکوک بڑھ گئے کہ وہ اپنا جانشین اپنی بیوی گریس کو مقرر کرنا چاہتے ہیں۔ اس بات کو ان کی فوج نے نہ پسند کیا اور حکومت پر قبضہ کرکے انھیں نظر بند کردیا۔ فوج کا کہنا تھا کہ وہ اقتدار پر قبضہ نہیں بلکہ کرپٹ عناصر کیخلاف کارروائی کرنا چاہتے ہیں ۔ زمبابوے کی پارلیمنٹ اور حکمراں جماعت نے بھی موگابے سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا جبکہ حکمراں جماعت نے انہیں پارٹی سربراہی سے بھی فارغ کردیا تھا ۔ موگابے کیخلاف کئی روز سے جاری احتجاج کا سلسلہ بھی جاری تھا۔رابرٹ موگابے 1960 کی دہائی کے افریقی نو آبادی رہوڈیشیا جو آج زمبابوے کہلاتا ہے کے ایک حریت پسند رہنما کے طور پر ابھرے تھے۔ وہ اس وقت نوآبادیاتی نظام اور عالمی سامراجیت اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک مزاحمتی لیڈر قرار پائے تھے۔دریں اثناء برطانوی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ زمبابوےکےصدرکےاستعفےپرخوش نہیں لیکن یہ اہم موڑہے،ایک بیان میں بورس جانسن کا کہنا تھا کہ برطانیہ ایک جائزحکومت کےقیام میں مددفراہم کرےگا۔