جنگجوؤں کی قلت، داعش خواتین کو جنگ کا ایندھن بنانے لگی;کم عمر لڑکیوں کو نوکری اور بھاری معاوضوں کا جھانسہ دے کر داعش کے چنگل میں پھنسایا جاتا ہے
دبئی،25اپریل(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)شام،عراق اور دوسرے ملکوں میں شدت پسند گروپ ’داعش‘ کو لگنے والی کاری ضرب نے تنظیم کو شدید افرادی قلت سے دوچار کیا ہے جس کے بعد تنظٰیم نے خواتین جنگجوؤں کو بھرتی کرنے کی ایک نئی حکمت عملی اختیار کیا ہے۔ایک بین الاقوامی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ داعش پے درپے شکست کے نتیجے میں بڑی تعداد میں اپنے مرد جنگجوؤں سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے جس کے بعد اس نے بڑی تعداد میں خواتین کو اپنی صفوں میں شامل کرنیکی پالیسی اپنائی ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت داعش کے جنگجوؤں کی ایک تہائی تعداد خواتین پرمشتمل ہے جب کہ داعش میں یورپی ملکوں سے 500 خواتین بھرتی ہوئی ہیں۔
خواتین کے داعش میں شمولیت کے محرکاتماہرین کا کہنا ہے کہ داعش کی جانب خواتین کی رغبت کے کئی اسباب اور عوامل ہیں۔ ایک محرک سوشل میڈیا ہے جس کے ذریعے خواتین داعش کی طرف زیادہ راغب ہو رہی ہیں۔ حیرت انگیز طور پر خواتین کو سوشل میڈیا کے ذریعے داعش کے چنگل میں لایا جا رہا ہے۔ایک محرک خواتین کا بندوق اٹھانے اور میدان جنگ میں لڑنے کا شوق ہے۔ داعش میں شامل ہونے والی بہت سی خواتین محض اپنے جنگی شوق، وحشیانہ کارروائیوں میں حصہ لینے کے لیے بھرتی ہوئی ہیں۔ کچھ کم عمر لڑکیوں کو نوکریوں اور بھاری معاوضوں کا جھانسہ دے کر داعش کے چنگل میں پھنسایا گیا۔البتہ یورپ سے داعش میں خواتین کی شمولیت کے اسباب مختلف ہیں۔ انتہا پسند تنظیموں کے امور کے ماہر ڈاکٹر خاد الزعفرانی کہتے ہیں کہ مہم جوئی کا شوق اور گناہوں سے بھری زندگی کو تکفیری نظریات میں تبدیل کرنا یورپی خواتین کی داعش میں شمولیت کے اہم اسباب ہیں۔اس کیعلاہ داعش خواتین کو بھرتی کرکے جنگجوؤں کی ایک نئی نسل پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ بہت سی خواتین کو جنگ کے لیے نہیں بلکہ بچے پیدا کرنے کے لیے بھرتی کیا جاتا رہا ہے۔ 2016ء کے دوران 35 ہزار داعشی خواتین نے بچوں کو جنم دیا۔