چنئی میں برقع پوش خواتین نےمسجدکے امام کو زندہ جلادیا
چنئی،30؍اگست(ایجنسی)تمل ناڈو کی راجدھانی چنئی میں حیران کرنے والا واقعہ پیش آیا ہے جہاں چندبرقع پوش خواتین نے مسجد کے امام کو زندہ جلادیاہے۔چنئی کے علاقہ تریپولین میں بڑی مسجد کے سامنے واقع دفتر میں پیرکی رات تقریباً8بجے امام مسجد سید فجرالدین بیٹھے ہوئے تھے کہ چند برقع پوش خواتین وہاں داخل ہوئیں۔
ذرائع کے مطابق ان میں سے ایک نے فجرالدین پر اچانک کیمیکل حملہ کیا اور انھیں نذرِ آتش کر دیا۔ واقعہ کو انجام دینے کے بعد وہ خواتین فرار ہو گئیں۔ پولیس کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ ’’پیر کی شب تقریباً 8 بجے 5 خواتین کے ساتھ ملزمہ بھی برقع پہن کر فجرالدین کے دفتر پہنچی۔ جب دیگر خواتین فجرالدین سے بات کر رہی تھیں تبھی ملزمہ خاتون نے ان کے اوپر ایک کیمیکل پھینک کر اس میں آگ لگا دی۔‘‘
پولیس مزید بتاتی ہے کہ ’’سید فجرالدین کو آگ لگانے کے بعد خاتون وہاں سے بھاگنے لگی۔ اس دوران امام کے ایک دوست نے ملزمہ کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ نکلی۔‘‘اس واقعہ میں امامِ مسجد بری طرح جھلس گئے تھے جنھیں فوری طور پر اسپتال پہنچایا گیا لیکن زخموں کی تاب نہ لانے کی وجہ سے ان کا انتقال ہو گیا۔
تریپولن پولیس نے قتل کا معاملہ درج کرکے جانچ شروع کر دی ہے ۔تاہم ہنوز قصوروار خاتون کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ پولیس خاتون کی شناخت اور قتل کی وجہ بھی تلاش کر رہی ہے۔ اس واقعہ کی تفتیش کرنے میں مصروف پولیس ٹیم کا کہنا ہے کہ جس طرح سے واقعہ کو انجام دیا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قتل منصوبہ بند تھا۔جانچ ٹیم میں شامل ایک پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ ’’جس بلڈنگ میں امام کا دفتر ہے اسی میں دکان چلانے والے 61 سالہ مانی نے واقعہ کے بعد خاتون کا پیچھا کر کے اسے پکڑ لیا تھا لیکن وہ انھیں دھکا دے کر بھاگ گئی۔ اس کے بعد مانی نے تریپولین پولیس کو واقعہ کے بارے میں مطلع کیا۔
واقعہ کی اطلاع ملتے ہی موقع پر پہنچی پولیس نے دیکھا کہ امام کے دفتر کا کچھ حصہ بھی خاکستر ہو گیا ہے۔‘‘معاملے کی جانچ کر رہے ایک افسر نے بتایا کہ جس طرح خاتون امامِ مسجد کو جلا کر پیدل بھاگی ہے، اس سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ آس پاس کہیں کوئی گاڑی اس کا انتظار کر رہی ہوگی۔ یہ سب کچھ منصوبہ بند معلوم ہو رہا ہے۔ زخمی حالت میں اسپتال پہنچے سید فجرالدین کا علاج کرنے والے ڈاکٹر نے مہلوک کی حالت کے بارے میں پولیس کو بتایا کہ ان کے جسم پر پٹرول اور کیروسین کا کوئی نشان نہیں ملا ہے۔ یہ پتہ لگانے کے لئے کہ امام پر کون سا کیمیکل پھینکا گیا، امام کے کپڑوں اور جائے وقوع سے ملی کچھ چیزوں کو ٹسٹ کے لئے فورنسک لیب بھیج دیا گیا ہے اور پولیس تحقیقات میں مصروف ہوگئی ہے۔ذرائع سے ملنے والی خبر بہت زیادہ واضح نظر نہیں آرہی ہے کیوں کہ امام مسجد کے دفتر میں داخل ہونے والی تقریباً5برقع پوش خواتین کی بات سامنے آرہی ہے جس میں سے ایک نے واقعہ کو انجام دیا تووہاں موجود4خواتین کو ن تھیں اور وہ کیا کرنے آئی تھیں ؟وہ واقعہ کے بعد کہاں چلی گئیں؟۔پولیس اس معاملہ میں کیا دیگر خواتین کی تلاش کررہی ہے؟۔یہ سوالات حل طلب ہیں۔