کیا یوٹی قادر کی پیش رفت پر بی جے پی لگا سکے گی بریک ؟یا چوتھی بار بھی اُلال میں لہرائے گا کانگریس کا پرچم ؟
منگلورو22؍مارچ(ایس اونیوز) وزیر غذا یوٹی قادرمسلسل چوتھی مرتبہ الیکشن جیتنے کی طرف پیش قدمی کررہے ہیں۔ حالانکہ وہ پہلی مرتبہ وزیر بنائے گئے ہیں ، مگر الال حلقے سے مسلسل تین بار وہ الیکشن جیت چکے ہیں،یعنی ایک بار بھی انہوں نے شکست کا منھ نہیں دیکھا ہے۔اس لئے کانگریس کے لئے یہ ایک محفوظ سیٹ کہی جاسکتی ہے۔
یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک عرصے سے الال کی سیٹ پر یوٹی قادر کے خاندان کا قبضہ چلتا آیا ہے۔ کیونکہ قادر سے پہلے ان کے والد یوٹی فرید اسی سیٹ سے چار مرتبہ جیتنے کا بلکہ کانگریس کو ملنے والے ووٹوں کی شرح 50فیصد سے آگے بڑھانے کاریکارڈ قائم کرچکے ہیں۔سن 2007میں یو ٹی فرید صاحب کی رحلت کے بعد ضمنی انتخاب سے ان کے فرزند قادر کو سیاسی ایوان میں داخلہ ملااور اب تک وہ اپنی پوزیشن مستحکم بنائے ہوئے ہیں۔
یو ٹی قادر کو الال حلقے سے کسی بھی حالت میں شکست دلانے کے منصوبے بی جے پی کی طرف سے سال 2013کے انتخابات کے دوران ہی شروع ہوگئے تھے۔اور اس کے لئے اس نے براہ راست مقابلے کے علاوہ چور دروازے سے مشکلیں کھڑی کرنے کی اسکیم بنائی تھی۔ لہٰذا اس الیکشن میں الال ہی ایک ایسا حلقہ تھا جہاں جملہ 15امیدوار میدان میں تھے اور ان میں سے 10مسلم امیدوار تھے۔لیکن یوٹی قادر نے اس سچویشن میں بھی 50 فیصد سے زیادہ ووٹ یعنی 69,450ووٹ حاصل کرتے ہوئے 29 ہزار ووٹوں کی مارجن سے جیت حاصل کی تھی اور اپنے قدم مضبوطی سے جمائے رکھنے کے اشارے دئے تھے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ قادر کے سامنے الیکشن لڑنے والوں میں سے کئی امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوگئی تھیں۔ دوسری طرف بی جے پی کی طرف سے قادر کے مقابلے میں جو بھی امیدوار ایک مرتبہ الیکشن ہار گیا اس نے دوبارہ ان کے سامنے مقابلے میں اترنے کی ہمت نہیں کی۔ اور حقیقت یہ بھی ہے کہ 1957سے آج تک الال کی سیٹ پرزیادہ تر کانگریس کا ہی قبضہ رہا ہے ۔صرف دوبار یہ سیٹ سی پی آئی (ایم) اور 1994میں ایک مرتبہ بی جے پی کے ہاتھ لگی تھی۔
یوٹی قادر نے رکن اسمبلی رہتے ہوئے ہی اپنے حلقے کے عوام کے دل جیت لیے تھے۔ اب وزارت کا قلمدان ملنے کے بعد انہوں نے اپنے علاقے میں کروڑہا کروڑ روپوں کے ہمہ جہتی ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا۔اور بظاہر وہ پہلے سے زیادہ مقبول عام لیڈر بن گئے ہیں۔ لیکن زعفرانی بریگیڈ اس سیٹ کو کسی بھی قیمت پر یوٹی قادر کے ہاتھوں سے چھین لینے کی تیاریوں میں لگی ہوئی ہے۔ دوسری طرف ایس ڈی پی آئی اور پی ایف آئی جیسی تنظیموں کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بھی یوٹی قادر سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ اوران کے مقابلے میں اس طرف سے بھی امیدواروں کے میدان میں اترنے کی توقع ہے۔فرقہ وارانہ تصادم کی صورت پر سنگھ پریوار کی طرف سے یوٹی قادر پر بھی الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ یہ کچھ منفی پہلو ہیں،جن کی وجہ سے یوٹی قادر کی راہ میں اس بار کچھ زیادہ مشکلات پیش آسکتی ہیں۔الال حلقہ اسمبلی میں اس وقت 1,86,968ووٹرس ہیں ۔ ان میں 75ہزار مسلم، 55ہزار بیلّوا،20ہزار عیسائی اور 36 ہزاردیگر کمیونٹی کے ووٹرس ہیں۔اس طرح یہ ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے اور ایک سے زیادہ مسلم امیدواروں کا یہاں میدان میں اترنا ووٹوں کی تقسیم کاسبب بن سکتا ہے۔
اس صورتحال سے نپٹنے کے لئے یوٹی قادر کے پاس کچھ پلس پوائنٹس بھی ہیں۔ جیسے کہ چرچ، مندر، مسجد، درگاہوں پریکساں طورپر حاضری دیتے ہوئے اپنے آپ کو پکا سیکیولر لیڈر ثابت کرنے کی کامیاب کوشش کرنا۔ عام لوگوں میں گھل مل کر ان کے مسائل حل کرنے اور تنازعات سے دور رہنے کی عادت۔ مسلم اکثریتی سیٹ ہونے کی وجہ سے مسلم مذہبی رہنماؤں سے قربت ان کے لئے ایک عطیہ کی حیثیت رکھتی ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ زعفرانی سیاست کے اندرونی داؤ پیچ کی وجہ سے یہاں 1994کی تاریخ دہرائی جائے گی اور پھر سے کنول کا پھول کھلنے کا منظر دیکھنے کو ملے گا یا اس بار بھی یو ٹی قادر اپنے سیکیولرازم کے چہرے کی وجہ سے اپنی سیٹ بچانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔