ضلع شمالی کینر اکو شاعرانہ زبان میں امن کا باغ کہا گیا ہے۔یہاں تشدد کے لئے کبھی پناہ نہیں ملی ہے۔تمام انسانیت ،مذاہب اور ذات کامائیکہ کہلانے والی اس سرزمین پر یہ کیسا تشددہے۔ ایک شخص کی موت اور اس کے پیچھے افواہوں کا جال۔پولیس کی لاٹھی۔ آمد ورفت میں رکاوٹیں۔ روزانہ کی کمائی سے پیٹ بھرنے والوں کے لئے فاقہ کشی کی نوبت۔ ٹوٹے ہوئے شیشوں والی دکانیں۔ نقصان زدہ موٹر گاڑیاں۔چار پانچ دنوں سے اپنے دروازے بند رکھی ہوئی دکانیں۔ اسکولوں کی طرف رخ کرنے سے گھبرائے ہوئے طلبا۔بازاروں میں گھومنے پھرنے سے گھبرائے ہوئے لوگ۔یہ ساری چیزیں ضلع کی خوبصورتی پر کلنک لگانے والی ہیں۔گشتہ چارچھ دنوں سے گزرنے والے حالات بدامنی کا پہاڑ جیسے لگ رہے ہیں۔ آخر یہ سب کسے چاہیے؟
پریش میستا کا قتل ظالمانہ ہونے کے باوجود اس کے ذمہ داروں کے ہاتھ پیر توڑدینے جیسی بات محکمہ پولیس کی طرف سے سختی کے ساتھ نہیں کہی گئی اور یہ سوچنا پڑتا ہے کیا واقعی کہ انتظامیہ کی طرف سے بدامنی کی آگ پر پانی ڈالا جارہا ہے ۔ایک کے بعد ایک ہر دن ہونے والے تشدد سے 24سال پہلے بھٹکل میں ہونے والے واقعات کے وہ دن یاد آتے ہیں۔ اسی پس منظر میں آج کے حالات کو دیکھیں توسوال یہ ہے کہ اس کا اختتام کب ہوگا؟
اگرپولیس والے کہتے ہیں کہ لاٹھی سے ہی سب کو سیدھے راستے پر لائیں گے توبی جے پی اور اس سے متعلقہ سنگھ پریوار والے اس کے لئے برسر اقتدار کانگریس حکومت کوہی ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔جبکہ کانگریس کارونا یہ ہے کہ آئندہ درپیش انتخابات کے لئے یہ سب بی جے پی کی طرف سے کھیلا جانے والا کھیل ہے۔ رونے والی کانگریس اور رلانے کے تیار رہنے والی بی جے پی کی سیاسی ضد کے بیچ ضلع کشیدگی میں پھنس گیا ہے۔ایک کے بعدایک ہونے والے فساد کی وجہ سے امن اور قانون کی صورتحال پوری طرح خستہ ہوگئی ہے۔ اور فسادی ذہنیت والوں کا غلبہ ہوگیا ہے۔محنت کرکے کھانے والوں کی زندگی فساد کی وجہ سے مشکل ہوگئی ہے۔ اسکولوں اور کالجوں کے دن بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ آمد و رفت کے لئے بسیں مہیا نہ ہونے سے عوام کو سفر کی مشکلات درپیش ہیں۔
24برس پہلے 90دنوں تک فساد کی آگ میں جلتا ہوابھٹکل پورے ملک میں بدنام ہوگیا تھا۔اس بدنامی سے ابھی تک باہر نہیں نکلا ہے۔ انسانیت مردہ ہونے اور وحشی پن کے غلبے نے 19سے زیادہ جانیں ضائع ہوگئی تھیں۔ جب وہ سب کچھ یاد ہے تو پھر دوبارہ ضلع میں آگ میں جلنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹیپو جینتی ، مرکزی وزیر اننت کمار کی غصہ سے بھری باتیں، وزیر اعلیٰ سدارامیا کے ضلع دورے کے موقع پر ان کا مذاق اڑانے والی باتیں کیا ضلع میں اشتعال انگیزی کا سبب بن گئیں۔ اس کا جواب چہار سمتوں سے ڈھونڈنا چاہیے۔
ضلع شمالی کینر ایعنی امن پسندوں کا گہوارہ۔ ہر جگہ یہ مانا جاتا ہے کہ یہاں کے لوگ عقلمند ہوتے ہیں۔ اس لئے یہاں کی پولیس کو دوسرے اضلاع میں امن قائم کرنے کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ یہاں کی زندگی آپسی بھروسے اور اعتماد پر ٹکی ہوئی ہے۔ ہوناور کے ایک گاوں میں ہندوؤں کے آخری رسومات کی ادائیگی کے لئے ایک مسلمان ضروری چیزیں فراہم کرتا ہے تو تو دوسری طرف مسلمانوں کی شادیوں میں اور ان کی مشکلات میں ہندو بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔چنداور جیسے گاوں میں ہندو اور مسلمان خاندان ایک ہی چال میں آباد ہیں۔بھٹکل کی چنبیلی کے پھول مسلمانوں کی شادیوں میں مہکتے ہیں۔اس میں کہاں ہے ذات پات کی دشمنی؟
ہوناور کے پریش میستاکی موت کی تحقیقات پولیس محکمے کو جلد ازجلد پوری کرنی ہوگی۔اس کے لئے خصوصی تحقیقاتی دستہ تشکیل دیا جانا چاہیے۔ پولیس کی طرف سے عوام کا اعتماد بحال کیا جانا چاہیے۔ ضلع میں امن کی بحالی کے لئے عوامی نمائندوں، امن پسند تنظیموں اور پتھراؤ کرنے کی ذہنیت رکھنے والوں کو ایک ساتھ مدعو کرکے اجلاس منعقد کرتے ہوئے ان کی فہمائش کرنی چاہیے۔ اس کے لئے پارٹی کی تفریق اور ووٹوں کے حساب وکتاب کو پرے رکھتے ہوئے سیاست دانوں اور عوامی نمائندوں کو ضلع کا وقار بحال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔کسی کے مقصد اور مفاد کے لئے پتھر پھینکنے ، شیشے توڑنے اور تشدد کو ہوا دینے سے نوجوان نسل کو باز آنا چاہیے۔ ضلع میں محنت کش ہاتھ ہی زیادہ ہیں۔ گھر بیٹھ کر کھانے والوں کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ اس لئے فساد میں ملوث ہونے والوں کوکسی اور کے مفاد کے لئے اپنی زندگی کو برباد کرنے سے بچنا چاہیے۔اس ضمن میں ضلع انتظامیہ کو بھی دلچسپی لینی چاہیے۔ محض قانون اور لاٹھی سے ضلع میں کشیدگی ختم ہونے والی نہیں ہے۔ دل اور جذبات کا بدلنا ضروری ہے ۔ اس کے بغیریہ راکھ میں دبی ہوئی بدامنی کی چنگاریاں باقی رہیں گی اور کسی بھی موقع پر بھڑک اٹھیں گی۔کشیدگی دماغوں سے دور ہونی چاہیے۔پریش کی موت سے پھیلنے والی آگ نے پورے ضلع کو اپنے گھیرے میں لے لیا ہے، یہ صرف ہوناور تک محدود نہیں ہے۔اس کو ختم کرنا بہت ضروری ہے۔ ضلع انچارج وزیر کو ضلع میں ہی قیام کرتے ہوئے عوامی نمائندوں، سرکاری افسران اور اداروں کے ذمہ داران کا مشترکہ اجلاس منعقد کرنا اور امن قائم کرنے کے لئے آگے بڑھنا ضروری ہے۔کانگریس اور بی جے پی کے سیاسی ہٹ دھرمی کے بیچ پھنسے ہوئے ضلع شمالی کینرا کو تحفظ کرنا ضروری ہوگیا ہے۔