اوربھی غم ہیں زمانے میں ’محبت‘ کے سوا! محمد شارب ضیاء رحمانی

Source: S.O. News Service | By I.G. Bhatkali | Published on 22nd November 2016, 3:56 PM | اسپیشل رپورٹس |

دوہرے رویئے اورپروپگنڈوں کی سیاست بی جے پی کی پہچان ہوگئی ہے۔جب یوپی اے حکومت نے 2005سے پہلے کے نوٹ کوبدلنے کااعلان کیاتھا تو بی جے پی نے اسے غریب مخالف بتاکرسخت مخالفت کی تھی،آج وہی قدم غریب پرورہے۔دہشت گردی کے خاتمہ کی بات کی جاتی ہے تولگتاہے کہ اس ناسورکے سدباب پرحکومت سنجیدہ ہے لیکن سادھوی پرگیہ،اسیماننداوراسرائیل سے متعلق اس کاموقف الگ ہوجاتاہے۔ کشمیرمیں ڈیڑھ سودنوں سے پوری زندگی مفلوج ہے،زیرِسماعت قیدی کوانکاؤنٹرکے بہانے اڑادیاجاتاہے،لیکن حقوق انسانی کی خلاف ورزی صرف مسلم خواتین کے معاملات میں سمجھ میں آتی ہے۔نوٹوں پرتبدیلی کے معاملہ میں اب تک ستر سے زائدافرادکی موت ہوچکی ہے۔کانپورمیں ٹرین حادثہ واقعی دردناک اورافسوسناک ہے،وزراء اظہارتعزیت کرچکے ہیں،مہلوکین کے اہل خانہ کوامدادکااعلان بھی ہوگیاہے،واقعہ کے ذمہ دارطے کرنے کیلئے جانچ کاحکم مل چکاہے لیکن نوٹ بندی کے بعداتنی اموات پرذمہ داری کیوں نہیں طے کی جاتی؟ اور”دیش ہت“ میں مرنے والوں کے اہل خانہ کوامدادکیوں نہیں دی جارہی ہے۔ اسی طرح بی جے پی وآرایس ایس کے لیڈران مسلم خواتین کی ہمدردی میں دبلی ہورہے ہیں،لیکن اسے نجیب کی ماں کے آنسو،ذکیہ جعفری،کوثربی کادرداورگجرات کی ہزاروں مظلوم خواتین کی سسکیاں محسو س نہیں ہوتیں۔سرکار یونیفارم سول کوڈ،نجیب کی گمشدگی،فرضی انکاؤنٹراورکشمیرپربیک فٹ پرتھی،جیب پرسرجیکل اسٹرائیک کے ذریعہ پارلیمانی سیشن میں اس نے اس آوازکودبادیا۔اپوزیشن کی ذمہ داری ہے کہ  وہ مذہبی آزادی میں مداخلت کی غیرآئینی کوششوں،نجیب کے معاملہ اورفرضی انکاؤنٹرپرحکومت کوگھیرکراپنی ذمہ داری اداکرے۔بی جے پی سرکارکانوٹ بندی کااقدام کئی اہم سوالوں کے گھیرے میں ہے۔ کجریوال نے براہ ِراست مو دی پرگھوٹالہ کے الزامات لگائے ہیں،انہوں نے اسمبلی میں کاغذات پیش کئے ہیں اور پوچھاہے کہ کیاوہ اپنے مارگ درشک اڈوانی کی طرح استعفیٰ دیں گے۔کئی اوراہم سوال ہیں جن کاکوئی مدلل جواب نہیں دیاجارہاہے۔ منطقی جواب کی بجائے رٹے رٹائے تین جملے ہرمعاملے میں اُگل دیئے جاتے ہیں۔ ’دیش دروہی،بلیک منی والے،ووٹ بینک کی سیاست‘جیسے الفاظ ان کی زبان پرہیں۔حکومت کے غلط اقدام کی تنقید،غداری کے کس زمرہ میں آتی ہے۔طے کرلیاگیاہے کہ جھوٹ اس قدرزورسے بولاجائے کہ معاملہ فوراََدوسرے رخ پرچلاجائے۔اگراپوزیشن نے (بہارالیکشن میں)بھاگوت کے دلت مخالف بیان کی طرح نوٹ بندی کے طریقہ کارکوعوام مخالف بتاکردرست طریقے سے گھیرنے کی کوشش کی تو یہ بی جے پی کیلئے مضرہوسکتاہے۔کہاگیاکہ دودن صبرکیجئے،پھرہفتہ،پھرتین ہفتے پھرپچاس دن تک ہوگئے۔اب کہہ رہے ہیں ’لائن میں لگے ہوئے ٹوجی والے ہیں‘۔سپریم کورٹ نے سخت پھٹکارلگاتے ہوئے معاملہ کوہلکابنانے کی کو شش کومستردکیاہے۔وزیراعظم کبھی ہنستے ہیں اورکبھی ایموشنل بلیک میل کرتے ہیں۔ اس کاکوئی جواب نہیں ہے کہ بغیرتیاری کے کیوں اتنابڑافیصلہ لیاگیا۔عام آدمی، جسمانی وذہنی ومعاشی اعتبارسے بہت زیادہ پریشان ہے جبکہ کالادھن رکھنے والے جن کی فہرست سرکارکے پاس ہے،کی پریشانی کہیں نظرنہیں آئی۔ ایسے الزام لگائے جارہے ہیں کہ دوستوں کوپہلے سے پتہ تھا،دینک جاگرن اورگجراتی اخبارکی کٹنگ بھی حوالہ میں پیش کی گئی ہے۔سوال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی حلیف شیوسیناکوکیوں نہیں بتایا۔بے وفائی پراودھوٹھاکرے کی برہمی اصولی اورمنطقی ہے۔

وزیراعظم مسلم خواتین کے خلاف ظلم پر’فکرمند‘ہیں۔انہوں نے اسے سیاسی موضوع نہ بنانے کی اپیل کی ہے۔حالانکہ بی جے پی صدرنے اسے یوپی الیکشن کاموضوع بنانے کااشارہ دیاہے۔دوسری طرف مودی ریلی میں اسے سیاسی موضوع بناکرچینلوں کومباحثہ کاٹھیکہ دے رے ہیں۔اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے کہ فرضی ہمدرد مسلم نماخواتین اور’اعلانیہ دہریہ‘کس کے آلہ کارہیں۔اگرکسی کواسلامی قانون پسندنہیں تودین میں کوئی زبردستی نہیں،دوسرے دھرم کے مطابق فیصلے کروالیاکریں،اسلامی شریعت میں تبدیلی نہیں ہوسکتی۔اسلام نے اتنے حقوق خواتین کودیئے ہیں کہ دنیاکاکوئی قانون نہیں دے سکتا،ستی میں بیوی کوشوہرکے ساتھ جلادینے والے،مسلم خواتین کوکیاانصاف دے پائیں گے۔ گذشتہ مضمون بعنوان’مسلم پرسنل لا:پیروپیگنڈوں کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک‘کے تحت،افواہوں پرتفصیلی جواب دینے کی کوشش کی تھی،چندباتوں کے اضافہ کے ساتھ خلاصہ پیش کردیاجاتاہے کہ یہاں مسئلہ تین طلاق کے ایک ہونے کاہے ہی نہیں،حکومت کاموقف سرے سے تین طلاق کوغیرموثرکرنے کاہے۔ظاہرہے کہ یہ سراسرقرآن وحدیث کی مخالفت ہے۔مسلمانوں کاکوئی مسلک اس کاقائل نہیں۔ان نزاکتوں کواہل حدیث علماء سمجھ رہے ہیں۔ اسی طرح یہ کہناکہ تین طلاق غیراسلامی ہے،بالکل غلط ہے۔جولوگ تین طلاق کوایک مانتے ہیں ان کے پاس بھی دلائل ہیں اورجوتین مانتے ہیں ان کے پاس بھی قرآن وحدیث پرمبنی دلائل ہیں۔یہ علمی مسئلہ ہے۔ہرسبجکیٹ پربحث اسی کے ماہرکوکرناچاہئے۔طلاق ثلاثہ سے متعلق دلائل کونظراندازکردیناانکارِحدیث ہے۔قرآن مجیدمیں کہاں یہ ذکرہے کہ تین طلاق اگرکسی نے دی توہوگی ہی نہیں یاایک مجلس کی تین طلاق ایک طلا ق ہوگی۔پورے قرآن مجیدمیں یہ کہیں مذکورنہیں ہے۔جبکہ عہدرسالت میں تین طلاق کاوقوع ثابت ہے،جمہور محدثین بشمول امام بخاری اسی کے قائل ہیں۔ مزیدصحابہ کرامؓ (جن میں عبداللہ بن عباسؓ بھی شامل ہیں)کے فتاووں میں بصراحت منقول ہے۔ایک ایسی ثابت شدہ چیزکاکلی انکارجہالت یاشرارت ہے۔اگرقرآن مجیدمیں طلاق ثلاثہ کاواضح ذکرہوناضروری ہوتویہ سوال کیاجائے گاکہ روزوں کے اوقات،نمازکے مسائل،اوقات ورکعات،حج کے فرائض وواجبات کیاقرآن مجیدمیں موجودہیں؟۔یہ بات بنیادی طورپرسمجھ لینی چاہئے کہ قرآن مجیداصولی کتاب ہے۔آپ ﷺشارح قرآن ہیں۔رسول اللہ ﷺکی بعثت اسی لئے ہوئی تھی کہ آپ اس کی عملی وقولی تشریح فرمائیں۔فرمایا’آپ وہی بولتے ہیں جووحی ہوتی ہے‘(سورہ نجم)۔حدیث کواوررسولﷺ کی زندگی کو نظراندازکرکے قرآن مجیدکونہیں سمجھاجاسکتا۔یہ بھی ذہن میں رہے کہ جہاں قرآن واحادیث میں واضح حکم موجودہو،وہاں اجتہادوقیاس درست نہیں ہوتا۔یہ دوبارہ عرض ہے کہ اسلامی قوانین،دوسرے قوانین کی طرح نہیں ہیں۔جس طرح چھٹی صدی عیسوی میں یہ دین مکمل تھا،اکیسویں صدی میں بھی سب سے بہترقانون ہے۔اس کی تکمیل کااعلان قرآن نے چودہ سوبرس پہلے کردیا۔یہ درست ہے کہ مسلم معاشرہ میں طلاق ونکاح وحلالہ وغیرہ سے متعلق خرابیا ں ہیں،مساجدکے منبرومحراب اس کے سدباب میں اہم کرداراداکررہے ہیں اوربھی متعددکوششیں ہورہی ہیں۔ان ہی کوششوں کانتیجہ ہے کہ تمام طبقات کے برعکس مسلم معاشرہ میں طلاق کی شرح سب سے کم ہے۔رپورٹ کے مطابق بھوپال میں چارسال میں ایک بھی طلا ق ثلاثہ کامعاملہ پیش نہیں آیا، ساٹھ فیصدطلاق کے مطالبات عورتوں کی طرف سے ہوئے۔ واضح ہوتاہے کہ مسلم معاشرہ میں طلا ق کی شرح سب سے کم ہے اورطلا ق ثلاثہ کے معاملات شاذونادرہیں۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نکاح سماجی معاہدہ ہے،جسے نباہنے کی کوشش کی جائے۔بالفرض زندگی اجیرن ہوجائے توطلاق ایک ضرورت ہے،وہ مسئلہ نہیں،مسئلہ کاحل ہے۔شریعت نے جومراحل صلح کے بتائے ہیں،ان سے گذراجائے،ضرورت ہوتوصرف ایک طلاق دی جائے۔ہاں اگرکسی نے تین دے دی توتین نافذہوجائے گی۔کیونکہ کسی چیزکاواقع ہوجاناایک الگ چیزہے اوراس کاگناہ ہوناالگ چیز۔قتل جرم ہے لیکن کوئی گولی چلادے توقتل ہوجائے گا۔ تین طلاق دینے کوسارے لو گ گناہ مانتے ہیں لیکن اس کاوقوع عقلی وشرعی دونوں اعتبارسے ثابت ہے۔جہاں تک بات غصہ میں طلاق کی ہے توبات صاف ہے کہ کوئی محبت اورپیارمیں طلاق نہیں دیتا۔ قانون میں غصہ کااعتبارہے توشریعت میں کیوں نہیں ہوگا،کیاایساکوئی قانون ہے کہ جوکام غصہ میں کیاجائے،وہ واقع نہیں ہوگا۔جب تمام قوانین میں غصہ کااعتبارہے توشرعی قوانین میں ا عتراض کیوں۔اسی طرح ای میل کی مستندحیثیت ہے،وہ سرکاری وغیرسرکاری معاملات میں معتبرہے۔توپھرطلاق میں ای میل کااعتبارکیوں نہیں کیاجائے گا۔رہی بات اسلامی ممالک کی توسعودی عرب اورپاکستان سمیت مسلم ممالک میں تین طلاق نافذہے۔اسی طرح یہ سمجھناچاہئے کہ حلالہ مردکیلئے سزاہے،معاشرہ میں اس کا غلط رواج،اسلامی احکام پرسوال کاموقعہ دیتاہے۔یہ بالکل حرا م ہے کہ کسی دوسرے مردسے اسی لئے نکاح کیاجائے کہ وہ شوہرطلاق دے تاکہ عورت پہلے مردکے پاس واپس آجائے۔حلالہ ایک بائی چانس صورت ہے۔

 نہ توجلدبازی میں شوہرکوطلاق کافیصلہ کرناچاہئے اورنہ خواتین کی طرف سے جذبات میں بہہ کراس کے مطالبات ہوں۔خواتین کے حقوق،وراثت میں حصہ جیسے موضوعات کوعوام کوسمجھایاجائے۔بنیادی سوال یہ ہے کہ صرف چندلاکھ مطلقہ مسلم خواتین کی فکرجناب کوکیوں ہے اورڈھائی کروڑسے زائدچھوڑی ہوئی غیرمسلم خواتین کی فکرکیوں نہیں ستارہی ہے؟کیاوہ ان ڈھائی کروڑخواتین کے و زیراعظم نہیں ہیں؟۔ مسلم خواتین سمجھ رہی ہیں کہ جن فرقہ پرستوں کے دامن معصوم عورتوں کے خون اوران کی عصمت سے داغدارہوں وہ بھلاکیامسلم خواتین کے ہمدردہوں گے۔ ایک ادنی ساشعوررکھنے والامسلمان بھی سمجھتاہے کہ بی جے پی اورآرایس ایس ہرگزمسلمانوں کی بہی خواہ نہیں ہوسکتی۔ان کی نیت میں فتورہے۔مقصدیوپی الیکشن میں مسلم مردوخواتین کے ووٹوں کی تقسیم نیزاس بہانے غیرمسلموں کے ووٹوں کاارتکازہے۔مسلم عورتوں نے دستخطی مہم میں زوردارحصہ لے کراورمختلف پریس کانفرنس اوراحتجاج کے ذ ریعہ بتلادیاہے کہ وہ مسلم پرسنل لاء پرمطمئن ہیں۔ وہ ہرگزہرگزان شرپسندوں کے جھانسے میں نہ آئیں گی۔خدانے جوحقوق انہیں دیئے ہیں،کوئی بھی حکمراں حقوق واختیارات نہیں دے سکتا۔اسلام کے مطابق دوسری،تیسری،چوتھی بیوی کوبھی شوہرالگ مکان کے مطالبہ پرطلاق نہیں دے سکتا۔ایک سے زائدشادی خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی ہے توپھرلیونگ ان ریلیشن کیاہے؟جسے قانونی تحفظ حاصل ہے اورچھوڑدینے کے بعدوہ بے سہاراہوجاتی ہیں۔اسلام نے اسے بیوی بناکرسارے حقوق دیئے۔خالق کائنات کاقانون انسانی فطرت کے مطابق ہے۔کسی تبدیلی کی کوئی گنجائش کسی انسان کے اختیارمیں نہیں۔ساتھ ہی دستورہندنے اس کی ضمانت دے رکھی ہے۔جولوگ مسلم پرسنل لامیں ترمیم کرناچاہتے ہیں وہ آئین ہندکی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں۔وہ جمہوریت کی بنیادی روح کے اسی طرح دشمن ہیں جس طرح مہاتماگاندھی کے مخالف۔اسلام کاصاف موقف ہے ”تمہارادین تمہارے لئے ہمارادین ہمارے لئے“، ہم تمہارے مذہب پرانگلی تم نہیں اٹھاسکتے،تم بھی مداخلت نہیں کرسکتے۔نیت میں اگر فتنے اورشرانگیزیاں نہ ہوں تومسلم خواتین کی بھلائی کے اوربھی راستے ہیں۔جوقوانین پہلے سے خواتین کے تحفظ کیلئے ہیں،ان پرنیک نیتی کے ساتھ عمل درآمدکرنے کی فکرکیوں نہیں کرتے۔دراصل دوسر ے مذاہب کی طرح طلاق کے معاملات کودشوارگذاربناکرمسلم خواتین کواسی طرح مصائب میں مبتلاکرنے کی سازش ہے۔اس سازش کوگہرائی اورسنجیدگی سے سمجھناچاہئے۔ملکی تعمیروترقی کے بہت سے کام ہیں اوربہت سے وعدے ہیں جوکئے گئے تھے،انہیں پوراکرنے کی فکرکرنی چاہئے۔

ایک نظر اس پر بھی

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...

اترکنڑا میں جاری رہے گی منکال وئیدیا کی مٹھوں کی سیاست؛ ایک اور مندر کی تعمیر کے لئے قوت دیں گے وزیر۔۔۔(کراولی منجاؤ کی خصوصی رپورٹ)

ریاست کے مختلف علاقوں میں مٹھوں کی سیاست بڑے زورو شور سے ہوتی رہی ہے لیکن اترکنڑا ضلع اوراس کے ساحلی علاقے مٹھوں والی سیاست سے دورہی تھے لیکن اب محسوس ہورہاہے کہ مٹھ کی سیاست ضلع کے ساحلی علاقوں پر رفتار پکڑرہی ہے۔ یہاں خاص بات یہ ہےکہ مٹھوں کے رابطہ سے سیاست میں کامیابی کے ...