کرنل پروہت کو سپریم کورٹ سے ملی ضمانت کے پس منظر میں ریٹائرآئی جی پی مہاراشٹرا ایس ایم مشرف کے چبھتے ہوئے سوالات
مراہٹی بیان کا آزاد ترجمہ: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
مالیگائوں بم بلاسٹ معاملے میں کرنل پروہت کو ضمانت ملنے پر Who Killed Karkare ? کے رائٹر اورسابق انسپکٹر جنرل آف پولس ایس ایم مشرف نے کچھ چبھتے ہوئے سوالات کے ساتھ سنسنی خیز خلاصہ کیا ہے، جس کو ایک مرہٹی نیوز چینل نے پیش کیا ہے۔ اُس کا مکمل ترجمہ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔
سپریم کورٹ میں ضمانت حاصل کرنے کے لئے لیفٹنٹ کرنل پروہت نے جو موقف اختیار کیا تھا وہ یہ تھا کہ میں نے' ابھینؤ بھارت'(بھگوا دہشت گرد تنظیم) کی خفیہ معلومات حاصل کرنے اور ان پر نگرانی رکھنے کے لئے ان کی تنظیم میں خود داخل ہوگیا تھا اور میں ان کی خفیہ معلوما ت اکٹھا کر رہا تھا۔ ان کا یہ جوموقف ہے وہ ایک غلط موقف ہے۔کیونکہ اس ضمن میں سب سے اہم سوال ان سے یہی پوچھنا ہوگا کہ آخر کب سے ہندوستانی فوج نے عام آدمی کی زندگی پر نگرانی رکھنا شروع کیا ہے؟ یہ روایت تو پاکستان میں موجود ہے اور وہاں فوج کی طرف سے عام سماجی زندگی کی نگرانی کی جاتی ہے، لیکن یہ ہندوستانی فوج کی روایت نہیں ہے۔
اس لئے میں کہنا چاہتاہوں کہ کرنل پروہت کا یہ کہنا ہی غلط ہے کہ وہ ابھینؤ بھارت کی جاسوسی کرنے کے لئے ان کی میٹنگ میں شریک رہا کرتے تھے ۔ اگر بحث کے لئے یہ فرض کربھی لیا جائے کہ وہ سچ کہہ رہے ہیں کہ معلومات حاصل کرنے کے لئے میٹنگ میں حاضر رہا کرتے تھے، تو یہ بھی حقیقت ہے کہ اس طرح شریک ہونے والے کسی بھی شخص کا کردار ایسی میٹنگوں میں بہت ہی محدود ہوتا ہے۔وہ جن میٹنگوں میں حاضر ہوتے تھے اس میں 2008کی فریدآباد میں ہونے والی اہم ترین میٹنگ شامل ہے۔اس میٹنگ کی روئیداد اور ویڈیو کلپ دیکھیں تو پوری میٹنگ انہوں نے ہی ہائی جیک کرلی ہے۔ وہ پوری طرح میٹنگ پر چھائے ہوئے ہیں ۔ اس میٹنگ میں بہت ہی اہم باتوں پر گفتگو کی گئی ہے۔جس میں ایک یہ ہے کہ دستور کو ختم کرکے نیا دستور وضع کیا جانا چاہیے۔ دوسرے ایجنڈوں میں ابھینؤ بھارت کی تنظیمی کارروائیوں اور آئندہ کی پالیسی پر بحث ہوئی ہے۔دہشت گردکارروائیوں کے لئے بیرونی ممالک سے کس طرح مدد حاصل کی جائے اس پر بھی گفتگوہوئی۔اتنے اہم ایجنڈوں پر میٹنگ میں جو بحث ہوئی ہے ، اس کی روئیداد دیکھنے سے پتہ چلتا ہے یہ تمام ایجنڈے خود کرنل پروہت ہی پیش کررہے تھے۔دو گھنٹے سے زیادہ چلنے والی اس میٹنگ میں آدھے سے زیادہ وقت کرنل نے ہی لیاہے۔ باقی نصف وقفہ میٹنگ میں موجود بقیہ 6 لوگوں نے لیا ہے۔اس کا مطلب یہی ہے کہ کرنل کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ انہوں نے خفیہ معلومات اکٹھا کرنے کے لئے میٹنگ میں شرکت کی تھی۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ حقیقت میں کرنل پروہت خفیہ معلومات کے لئے ہی میٹنگ میں گئے تھے، تو یہ پوچھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ کیا انہوں نے اس کے لئے فوج کی طرف سے اجازت حاصل کی تھی، یا پھر بغیر اجازت ہی وہ میٹنگوں میں شریک ہورہے تھے۔اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ انہیں جو خفیہ معلومات مل رہی تھیں ، وہ ان معلومات کاکیا کرتے تھے؟کیونکہ دستیاب ریکارڈ کے مطابق ان کی جو پہلی میٹنگ ہوئی تھی وہ جنوری 2008 میں منعقد ہوئی تھی۔جس میں ملک دشمن سرگرمیاں انجام دینے پر بحث ہوئی۔ تو کیا اس بات کی اطلاع انہوں نے اعلیٰ افسران کودی تھی؟اگر دی تھی تو یہ خفیہ معلومات کس کو دی تھی؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اتنی اہم خفیہ معلومات دستیاب ہوتے ہی ابتدائی چند دنوں میں ہی اس طرح کی سازش رچنے والوں کو گرفتار کیا جانا چاہیے تھا۔لیکن انہوں نے کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا۔اس کے بعد پھر اپریل میں بھوپال میں میٹنگ ہوئی۔ اس میٹنگ میں مالیگاؤں بم بلاسٹ کی سازش رچی گئی۔اس کے بعد پھر جون اور جولائی میں اندور میں میٹنگیں ہوئیں۔ وہ بھی مالیگاؤں بم بلاسٹ سے متعلق تھیں۔ بعد ازاں اگست کے مہینے میں اجین میں میٹنگ ہوئی۔اس میٹنگ میں دیانند پانڈے نے سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کے آدمیوں کو آر ڈی ایکس فراہم کرنے کا حکم کرنل پروہت کو دیاتھا۔جس کا صاف مطلب ہے کہ یہ میٹنگ بھی مالیگاؤں بم بلاسٹ کی سازش کا ہی حصہ تھی۔ان تمام میٹنگوں میں کرنل پروہت حاضر تھے۔
اگر چارج شیٹ کا مطالعہ کریں تواس میں لکھا ہے کہ فرید آباد، اجین اور بھوپال کی میٹنگوں کی ویڈیو کلپس ان کے پاس موجود ہے۔ جب صورتحال ایسی تھی اور تمام معلومات کرنل کو دستیاب تھیں تو پھر وہ خاموش کیوں بیٹھے رہے۔جنوری، اپریل، مئی، جون ، جولائی کے بعد ستمبر میں بم دھماکے ہونے تک وہ چپ کیوں رہے۔ ان دھماکوں کو انہوں نے کیوں نہیں روکا۔انہوں نے اس کی اطلاع کس کو دی تھی؟ اگر کسی اعلیٰ افسر کو رپورٹنگ کی تھی تو انہیں کس قسم کی معلومات فراہم کی تھی؟ اور پھر ایسے اعلیٰ افسر ان بھی شک کے دائرے میں آجاتے ہیں۔آخر یہ لوگ کس بات کا انتظار کررہے تھے اور کیوں اپنے آپ کو روک رکھا تھا؟ ان سارے سوالوں کے جوابات ملنا بے حد ضروری ہے۔
یہ جو کچھ بھی آج کہا جارہا ہے اس میں جھوٹ اس لئے بھی نظر آرہا ہے، کیونکہ بم دھماکے ہونے کے بعد بھی انہوں نے اس تعلق سے معلومات فراہم نہیں کی تھی۔ کم ازکم بلاسٹ ہونے کے بعد توکرنل یہ کہہ سکتے تھے کہ کسی وجہ سے وہ پہلے معلومات دے نہیں دے سکے تھے ،لیکن اب جو دھماکے ہوئے ہیں ان میں فلاں فلاں لوگ ملوث ہیں اس لئے انہیں گرفتار کیا جائے ۔ لیکن کرنل نے یہ بھی نہیں کیا ۔جب اے ٹی ایس چیف ہیمنت کرکرے زندہ تھے اور پولیس کو کرنل پر شک ہوا تھاتب انہوں نے کرنل پروہت اور ریٹائرڈ میجر رمیش اپادھیائے کا ٹیلی فون ٹیاپ کرنا شروع کیا۔اور 23اکتوبر 2010کو تین چار مرتبہ فون پرا ن کی گفتگو ریکارڈ کی گئی۔ اس ریکارڈنگ سے یہ انتہائی اہم جانکاری انہیں (اے ٹی ایس کو) مل گئی کہ ان بم دھماکوں کے پیچھے یہی لوگ ہیں۔اتنے واضح ثبوت ہونے کے باوجودان لوگوں کا یہ کہنا کہ ان کے خلاف شواہد نہیں ہیں، ایک بے معنی بات ہے۔
بعد ازاں این آئی اے نے جب کراس چیک کیا تو کہتے ہیں کہ کچھ گواہ اپنے بیان سے مکرگئے ہیں۔ چلو مان لیتے ہیں کہ کچھ گواہ اپنے بیان سے مکر گئے ہیں ۔ لیکن وہ جو سائنٹفک اور ٹیکنیکل شہادتیں جیسے ویڈیو ریکارڈنگ، آڈیو ریکارڈنگ اور ٹیلی فون بات چیت کی ریکارڈنگ وغیرہ موجود ہے اس بارے میں وہ کچھ نہیں کہہ رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ جو کچھ بھی پختہ ثبوت ہیں، وہ تو ویسے ہی موجود ہیں اور انہیں مٹایا نہیں جاسکتا ہے۔اس لئے تعجب ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں کرنل پروہت کو ضمانت کیسے مل گئی !
سال 2008میں جو تفتیش ہوئی تھی وہ انتہائی اہم ہے۔ کیونکہ 2008میں برہمن وادیوں کی ملک دشمن سازش کا پردہ فاش ہوا تھا۔جسے(ہیمنت) کرکرے نے بے نقاب کردیا تھا۔ کرکرکے کو اس تحقیقات کے دوران 3لیپ ٹاپ ملے تھے۔ اس میں 24آڈیو اور 24ویڈیو جملہ 48کلپس تھے۔جب وہ زندہ تھے تو انہوں نے 3ویڈیو اور 2آڈیو کلپس دیکھی تھی اور باقی کلپس کی جانچ جاری تھی یعنی 43کلپس دیکھنا باقی تھا، لیکن تب تک 26/11 کے ممبئی حملے کا انتظام کرکے انہیں مارڈالا گیا۔اس میں ابھینؤ بھارت کا ہی ہاتھ ہے۔اور اس کے لئے آئی بی نے اس کی مدد کی تھی، اس کا خلا صہ میں اپنی کتاب who killed Karkare? میں صاف طور پر بیان کرچکا ہوں۔
اگر 2008کی تحقیقات مکمل ہوگئی ہوتی تو ملک بھر میں برہمن وادیوں کی جوملک دشمن سازش ہے وہ کھل کر عوام کے سامنے آجاتی اس لئے اسے منظر عام پر آنے سے روکنے کے لئے جو کچھ بھی وہ کرسکتے تھے انہوں نے کیاجس میں کرکرے کو ہلاک کرنا بھی شامل تھا۔یہی وجہ ہے کہ 2008میں شروع کی گئی تحقیقات کسی طور بھی انجام کو نہ پہنچے اس کے لئے انہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایاہے۔سرکاری وکیل سالیان نے بھی 2015میں کہا تھاکہ سرکار کی طرف سے ان کو اشارہ دیا گیاتھا کہ اس کیس کی رفتار دھیمی کر دی جائے ۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ کسی بھی قیمت پر تحقیقات کو مکمل ہوتے دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔
اس کے لئے میں دونوں حکومتوں کو الزام دینا نہیں چاہتا۔ چاہے وہ کانگریس کی سرکار ہو یا بی جے پی کی۔کیونکہ یہ جو برہمن واد ہے وہ ہر ایک شعبے پر چھایا ہوا ہے اور وہ کوشش کررہے ہیں کہ یہ جانچ مکمل نہ ہو۔اور اگریہ جانچ مکمل ہوجاتی ہے ، تو برہمن وادیوں نے ہزاروں سالوں سے اپنا جوبرہمن وادی قلعہ بنایا ہوا ہے اس کے مسمارہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔اسی لئے اس جانچ میں رکاوٹیں پیداکرنے کی کوششیں کی گئیں اور کی جاتی رہیں گی۔
اب جب کہ تمام تر پختہ ثبوت موجود ہیں ، تو پھر ترقی پسند اور بہوجن سماج کی تحریکوں سے وابستہ لوگوں کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس معاملے کی پوری پوری تحقیقات کیسے ہو او ر اسے اپنے انجام کو کس طرح پہنچایا جاسکتا ہے۔اس معاملے کے جتنے بھی سی ڈیز اور کلپس ہیں وہ منظر عام پرکیسے آئیں گے۔ اور یہ جو برہمن وادیوں کا نقلی اور ملک دشمن چہرہ ہے وہ عوام کے سامنے کیسے بے نقاب ہوگا۔ اس کی جد وجہد کرنا ضروری ہے۔مجھے لگتا ہے کہ اس کے لئے عدالتی جنگ لڑنی ہوگی۔ اس کے لئے سڑکوں پر اترنا ہوگا اور اس کے لئے سیاسی زاویے سے بھی کوشش کرنی ہوگی۔