”البغدادی“کے بعد ”خلیفہ“کے منصب کا کیا ہو گا؟
ریاض:7/مارچ (ایس او نیوز/آئی این ایس نڈیا)عراق اور شام میں داعش تنظیم کے خلاف بین الاقوامی افواج کی کارروائیوں میں شدت آنے کے بعد یہ سوال سامنے آ رہا ہے کہ داعش کے سربراہ "ابو دعاء السامرائی" عُرف "ابوبکر البغدادی" کے مارے جانے کی صورت میں نام نہاد "خلافت" کے منصب کا انجام کیا ہوگا.. اور عراق اور شام کے منظر ناموں سے داعش کے اہم اور نمایاں رہ نماؤں کے غائب ہو جانے کے بعد تنظیم کی خلافت سنبھالنے والی ممکنہ شخصیت کس کی ہو سکتی ہے؟داعش تنظیم 15 اکتوبر 2006 کو "دولۃ العراق الاسلامیۃ" کے نام سے بنائی گئی تھی۔ اس سے قبل اردنی نژاد ابو مصعب الزرقاوی نے 2004 میں "التوحید والجہاد فی بلاد الرافدین" کے نام سے ایک جماعت تشکیل دی تھی۔ بعد ازاں زرقاوی نے اسامہ بن لادن کی بیعت کر کے نئی تنظیم "القاعدہ فی بلاد الرافدین" کے نام سے قائم کی۔خلیفہ کے منصب پر "بغدادیوں " کی اجارہ داری"خلیفہ" کا منصب اور "امیر المؤمنین" کی شناخت داعش تنظیم کا مرکز عراق میں ہونے کے سبب "بغدادیوں " کی اجارہ داری کے تحت رہے گا۔ مجلس شوری کی جانب سے چُنے جانے کے بعد مذہبی اور سیاسی قائد ہونے کی بنیاد پر وہ اس امر کا مستحق بن جاتا ہے کہ اس کی مکمل اطاعت کی جائے۔ ان میں ابو عمر البغدادی (حامد داؤد الزاوی) اور اس کے بعد ابو بکر البغدادی (ابراہیم عواد البدری) کا نام منظر عام پر آیا۔داعش تنظیم سے منحرف ہو جانے والے ارکان کے انکشاف کے مطابق "خلیفہ" کے منصب پر ابو عمر البغدادی اور پھر ابو بکر البغدادی دونوں کا تقرر "برجستہ" طور پر کیا گیا اور اس سسلسلے میں تنظیم کی جانب سے طے کردہ شرعی قابلیت اور لڑائی کے تجربے کو پیشِ نظر نہیں رکھا گیا۔ ولم یکن بحسب ما روج لہ التنظیم للکفاء ۃ الشرعیۃ والخبرۃ القتالیۃ.عراق میں داعش تنظیم کے قاضیِ عام "ابو سلیمان العتیبی" نے 1428 ہجری میں القاعدہ تنظیم کے خراسان گروپ کی قیادت کو تحریر کیے گئے ایک خط میں انکشاف کیا کہ ابو حمزہ المہاجر کے ساتھ اُن کی بات چیت کے بعد بنا کسی تیاری کے ابو عمر البغدادی کو "امیر المؤمنین" مقرر کردیا گیا۔ العتیبی کے مطابق یہ انتہائی عجیب بات تھی کہ دولتِ اسلامیہ کا اعلان تو اتنے ہنگامی طور پر کر دیا گیا جب کہ یہ طے نہیں ہوا کہ درحقیقت امیر المومنین کون ہوگا۔ اس سلسلے میں ابو عمر البغدادی کا ایک مستعار نام طے کر لیا گیا جب کہ شخصیت کا تعین نہیں کیا گیا۔ العتیبی کے مطابق اسے یہ بتایا گیا کہ خلیفہ کے منصب پر مقرر شخص کو ایک ماہ جانچا جائے گا اگر وہ مناسب رہا تو اسے باقی رکھا جائے گا ورنہ پھر کسی اور شخص کو تلاش کیا جائے گا۔دوسری جانب "خراسان و عراق و شام" نامی گروپ کے ایک جنجگو ابو احمد کی جانب سے القاعدہ تنظیم کے میڈیا فورموں پر جاری ایک خط میں کہا گیا کہ " شیخ ابو حمزہ المہاجر نے بڑے عجیب طور سے ابو عمر البغدادی کے ہاتھ پر بیعت کی جو تنظیم میں کسی بھی سطح کے قائد کی حیثیت سے نہیں جانا جاتا تھا بلکہ وہ ایک عام شخص تھا"۔ابو احمد کے مطابق موجودہ خلیفہ "ابو بکر البغدادی کا چناؤ تو مزید افسوس ناک رہا۔ ہم اور تنظیم کے زیادہ تر کمانڈر اس کو نہیں جانتے تھے۔ رازداری اور رابطوں میں کمزوری کے سبب ہر شخص یہ گمان کر رہا تھا کہ اس کو فلاں نے چنا ہوگا"۔ابو احمد نے بتایا کہ " سامراء میں پیدا ہونے والے البغدادی کا تعلق قبیلہ بو بدری سے ہے۔ میں نے بہت تحقیق کی اور آخرکار نسبوں کی پہچان رکھنے والے ایک مجاہد بھائی نے اس امر کی تصدیق کی کہ بو بدری قبیلہ آل بیت اور قریش میں سے نہیں۔ لہذا ابو بکر نہ تو بغدادی اور نہ ہی قریشی ہے"۔داعش سے منحرف جنگجو ابو احمد کا مزید کہنا تھا کہ " البغدادی نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری نہیں حاصل کی۔ وہ شرعی علوم میں ڈاکٹریٹ نہیں .. وہ بغدادی اور قریشی نہیں اور نہ ہی امام حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کی اولاد میں سے ہے۔ یہ سراسر داعش کا جھوٹ ہے"۔اس کے علاوہ جنگجوؤں کی خط و کتابت کے ذریعے انکشاف ہوا کہ ابو دعاء السامرائی (ابو بکر البغدادی) وہ شخصیت نہیں جس کو داعش تنظیم کی مجلس شوری کے ناظمین نے "خلیفہ" کے منصب پر مقرر کیا بلکہ وہ محض "دولتِ اسلامیہ" کی ڈاک رکھنے والا شخص تھا۔ کوئی بھی جنگجو ڈاک لے کر آتا اور اس کے گھر کے صحن میں پھینک جاتا اور پھر کوئی دوسرا جنگجو آ کر اس سے وہ ڈاک لے لیتا اور البغدادی کو فریقین کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہوتا۔جہادی اور بنیاد پرست جماعتوں کے نظریہ کاروں کے نزدیک "البغدادی محض ایک علامتی شخصیت اور تنظیم میں کمزور ترین حیثیت کا مُہرا ہے جس کی ہلاکت تنظیم کے اسلوب اور اس کی قوت پر ہر گز اثر انداز نہیں ہوگی۔ یہ بہت آسان ہے کہ کسی بھی عراقی شخصیت کو لے کر اس کی نسبت قریش سے کر دی جائے گی۔ فی الحال اس حوالے سے کوئی متعین نام نہیں ہے کہ البغدادی کا جاں نشیں کون ہو 19 اپریل 2010 کو ابو عمر البغدادی کی ہلاکت کے اعلان کے بعد تنظیم کی اعلی قیادت کی جانب سے 16 مئی 2010 کو جاری ایک بیان میں ابو بکر البغدادی کی بطور امیر المومنین بیعت کا اعلان کیا