اتر پردیش میں لاقانونیت: بلند شہر میں پولیس پر حملہ۔منظم طور پر گؤ رکھشکوں کے بڑھائے گئے حوصلوں کا نتیجہ۔۔۔(ٹائمز آف انڈیا کا اداریہ )
اتر پردیش کے بلند شہر ضلع میں مبینہ طور پر گؤ کشی کے خلاف احتجاجی ہجوم کی جانب سے پولیس پر دہشت انگیز حملہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ گؤ رکھشکوں کے حوصلے کس حد تک بلند ہوگئے ہیں۔گڑبڑ اس وقت شروع ہوگئی جب مہاؤ نامی علاقے میں کچھ مقامی افراد نے قریبی جنگل میں مبینہ طور پر گائے کی ہڈیاں دیکھیں۔اس کے بعد دائیں بازو کی تنظیموں کی طرف سے احتجاج شروع ہوا جوکہ قابو سے باہر ہوگیا۔بعدازاں اس تشددمیں سیانا اسٹیشن کے آفیسر سبودھ سنگھ کے سر میں داغی گئی گولی نے ان کی جان لے لی۔ہجوم نے بہت ساری موٹر گاڑیاں اور چنگراوتی پولیس چوکی (آؤٹ پوسٹ) کو نذر آتش کردیا توپولیس نے بھی فائرنگ کی اور اس کے نتیجے میں مظاہرین میں شامل ایک شخص بھی ہلاک ہوگیا۔
اس تخریب کاری کے پیچھے اترپردیش جیسی ریاستوں میں گؤ رکھشکوں کو ملنے والی کھلی چھوٹ ہے جہاں پولیس والے اکثر و بیشتر ان کے جرائم کے خلاف راست بازی کے ساتھ مقدمات تک درج کرنے سے کتراتے ہیں۔بلند شہر کا واقعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس خوفناک حیوانیت نے اب ایسا وحشی رخ اختیار کرلیا ہے کہ اسے قابو میں کرنا سیاسی آقاؤں کے بس میں نہیں رہا۔اسی دوران محمد اخلاق سے لے کر پہلو خان تک گؤ رکھشکوں کا شکار ہونے والے بہت سے معاملات ابھی تک انصاف کا منھ دیکھنے کے لئے ترس رہے ہیں کیونکہ ان کے مقدمات برف کے تودے کی طرح سست روی سے چل رہے ہیں۔درحقیقت اخلاق کے قتل کے ملزمین ضمانت پر آزاد ہوگئے ہیں اور ان میں سے ایک نے تو 2019کا پارلیمانی انتخاب لڑنے کا اعلان کردیا ہے۔ایک ایسے ماحول میں جب گؤ رکھشک قانون کواپنے ہاتھ میں لیتے وقت اپنے حوصلوں کو بلند ہوتا ہوا محسوس کریں ، بلند شہر انہیں قانون پر ہی ٹوٹ پڑنے کا راستہ دکھاتا ہے۔
اس کی وجہ سے گائے سے وابستہ بیمار اقتصادی حالت مزید بدتر ہوجائے گی۔ایک ایسے ملک میں جہاں دنیا میں سب سے زیادہ مویشی پائے جاتے ہوں، بے فائدہ جانوروں کو ذبح کرنایا اس کے باقیات کو ٹھکانے لگانا ایک معمول کی کارروائیوں میں شامل ہونا چاہیے۔لیکن بی جے پی کی سیاست سے حوصلہ پانے کے بعد گؤ رکھشا نے مویشیوں کے اس کاروبار کو نقصان پہنچایا ہے، جس میں لاکھوں افراد کو روزگار ملتا ہے۔ دیہی علاقوں میں بے فائدہ گائیں لاوارث گھومنے اور کسانوں کے لئے آفت جاں بن جانے کی رپورٹس یہ بتاتی ہے کہ گائے کی نسل سے متعلقہ افزائش مویشی کا شعبہ پریشان کن طریقے پر برباد ہوگیا ہے۔
اورلگتا ہے کہ اتر پردیش اس مسئلے کی جڑ بن گیا ہے۔ ریاست کے بے روزگار نوجوانوں کی کثیر آبادی نہ صرف گؤ رکھشا گروہوں کے لئے سپاہی فراہم کرتی ہے ۔ بلکہ سیکیوریٹی کا نظام بھی ڈھیلاڈھالا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ سرکار کی نام نہاد اینکاونٹر کے ذریعے قتل کی مہم صاف ظاہر کرتی ہے کہ یہاں کی پولیس فورس اور سیاسی قیادت دونوں ہی بگڑتے ہوئے نظام کو درست کرنے کے لئے کوئی ٹھوس سوچ سے خالی ہیں۔ اس کے بجائے ان کا بھدا طریقہ کار امن و امان کی صورتحال کو بد سے بد تر بنا رہا ہے۔ آدتیہ ناتھ کو اپنی ریاست سے باہر انتخابی تشہیر میں کم وقت لگاتے ہوئے اپنا پورا دھیان اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کی ذمہ داریوں پر مرکوز کرنے کا جو مشورہ اپوزیشن کی جانب سے دیا جارہا ہے اگروہ اس پر عمل کریں تو شائد زیادہ بہتر ہوگا۔
ترجمہ: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
(مہمان اداریہ کے اس کالم میں دوسرے اخبارات کے ادارئے اوراُن کے خیالات کو پیش کیا جاتا ہے ، جس کا ساحل آن لائن کے ادارئے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)