سمندر میں مچھلیوں کا قحط۔ ماہی گیر کشتیاں بندر پر لنگر انداز ہونے پر مجبور۔بازار میں مچھلیوں کی قیمت آسمان کو چھونے لگیں
کاروار 7؍مارچ (ایس او نیوز)ضلع شمالی کینرا میں گہرے سمندر میں غیر سائنسی انداز میں ماہی گیر ی اور اور مچھلیوں کے شکار کے لئے نکلنے والی کشتیوں میں ہونے والے روز بروز اضافے کا منفی اثر یہ ہواہے کہ سمندر کے اندر مچھلیوں کا قحط پڑ گیا ہے اور شکار پرنکلنے والی کشتیاں نقصان سے بچنے کے لئے بندرگاہوں پر ہی لنگر انداز رہنے پر مجبور ہوگئی ہیں۔
مچھلیوں کا شکار کم ہونے کا دوسرا منفی اثر یہ ہوا ہے کہ مارکیٹ میں مختلف قسم کی مچھلیوں کے دام آسمان کو چھونے لگے ہیں۔عام طور پرجون میں مانسون کی آمد کے پیش نظر مئی کے اواخر میں سرکاری طور پر گہرے سمندر میں ماہی گیری پر پابندی لگادی جاتی ہے۔لیکن گزشتہ سال سے فروری کے مہینے میں ہی ماہی گیروں کو سمندر میں مچھلیوں کی کمی کی وجہ سے کشتیاں بند رکھنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔
ماہی گیروں کے لیڈر راجو ٹانڈیل کے مطابق’’ سمندر میں مچھلیوں کا قحط پڑا ہوا ہے۔ اس لئے پرس سیئن کشتیوں کے مالکان نے سمندر میں مچھلیوں کے شکار پر نکلنا بند کردیا ہے۔ پر س سیئن کشتی کی سمندر میں ایک ٹرپ پر کم ازکم ایک لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اگر ایک لاکھ روپے مالیت کی مچھلیوں کا شکار نہیں کیا جا سکاتو پھر کشتی مالک کو بھاری نقصان اٹھا نا پڑتا ہے۔
دوسری طرف سے ماہی گیری اور سمندری زندگی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ گہرے سمندر کے ایک محدود علاقے میں ہی بہت ساری کشتیاں بیک وقت ماہی گیری کرتی ہیں۔اس کی وجہ سے چند کشتیاں اگر زیادہ مچھلیاں پکڑ لیتی ہیں تو بقیہ کشتیوں کا خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا ہے۔یہ ماہی گیر بہت ہی باریک قسم کا جال (35ایم ایم سے کم سوراخ والا)استعمال کرتے ہیں جس سے بہت ساری چھوٹی مچھلیاں بھی جال میں پھنس جاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے مچھلیوں کی افزائش نہیں ہو پاتی۔محکمہ ماہی گیری کے ایک افسر نے بتایا کہ ’’ضلع شمالی کینرا میں ہرسال 30سے زیادہ نئی پرس سیئن کشتیاں، 100سے زائد آؤٹ بورڈ انجن کشتیاں،اور دوسری قسم کی ماہی گیر کشتیاں سمندر میں اتاری جاتی ہیں۔کشتیوں کی تعدا د بڑھتی جارہی ہے اور تمام کشتیاں ایک ہی مقام پر شکار کرتی ہیں۔اس کی وجہ سے سمندر میں مچھلیوں کا قحط پڑنا لازمی ہے۔
ضلع شمالی کینرا کے محکمہ ماہی گیری کے ڈپٹی ڈائریکٹر پی ناگراج نے بتایا کہ کرناٹکا فشریز ڈپارٹمنٹ نے سینٹرل فشریز ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، فشریز سروے آف انڈیا اور دیگر تنظیموں کے اشتراک سے ماہی گیروں کے اندر بیداری لانے کی مہم شروع کی ہے۔ حال ہی میں ماہی گیروں کے لئے ورکشاپ کا انعقاد کرتے ہوئے انہیں غیر سائنسی انداز کی ماہی گیری سے بچنے ،مچھلیوں کی بڑی مقدار موجود رہنے کے مقامات سے متعلق جانکاری دی گئی ہے۔اس کے علاوہ سمندر میں مچھلیوں کی کمی کے اسباب کے تعلق سے تحقیقات بھی کی جارہی ہے۔
خیال رہے کہ ضلع شمالی کینرا میں اس وقت کاروار، موڈاگا، بیلے کیری، کمٹہ، ہوناور، تدڑی، مرڈیشور اور بھٹکل جیسی بندرگاہوں سے ماہی گیر کشتیاں سمندر میں شکار کے لئے نکلتی ہیں۔ بتایاجاتا ہے کہ جملہ 106پرس سیئن کشتیاں ،684 ٹرول کشتیاں ، 1,124میکانائزڈ کشتیاں،2,600 آؤٹ بورڈ انجن کشتیاں،اور 6,800روایتی کشتیاں ان مقامات سے ماہی گیری کے لئے روانہ ہوتی ہیں۔