اوول آفس میں ڈونلڈ ٹرمپ کے سو دن:کیا کھویا، کیا پایا؟
واشنگٹن30اپریل(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)ڈونلڈٹرمپ نے امریکی صدر کے طور پر اپنے پہلے ایک سو روز مکمل کر لیے ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے ریاست پنسلوینیا میں ایک بڑی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ذرائع ابلاغ اور سابق صدر باراک اوباما پر تنقید کی اور اپنے اقدامات کو سراہا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کی پہلی ملاقات سے بہت سی توقعات وابستہ تھیں۔ تاہم ملاقات کے فوری بعد ٹرمپ کا کہنا تھا کہ تاحال انہیں اس ملاقات سے کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اوول آفس میں اپنے پہلے ایک سو ایام کو ایک حیرت انگیز سفر سے تعبیر کیا ہے۔ ریاست پنسلوینیا کے شہر ہیرس برگ میں اپنے ہزاروں حامیوں سے ہفتہ انتیس اپریل کے روز خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انتہائی کارآمد سو دن مکمل ہو گئے لیکن ابھی آگے کئی امتحانات اور آزمائشیں ہیں۔صدر ٹرمپ نے تقریباً ایک گھنٹہ طویل اپنی تقریر میں سابق صدر باراک اوباما کے ساتھ ساتھ ملکی ذرائع ابلاغ کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے امریکا کے صنعتی شعبے اور فوج کے لیے اپنی حمایت کو بڑھ چڑھ کر بیان کیا۔ ٹرمپ نے شمالی کوریا اور دیگر اہم عالمی امور پر اپنی انتظامیہ کی خارجہ پالیسیوں کو بھی واضح کیا، جس کا ریلی کے شرکاء نے پر جوش انداز میں تالیاں بجا کر جواب دیا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارآمد کارروائیوں کے نتیجے میں منشیات کا کاروبار کرنے والوں، خطرناک گروہوں کے ارکان اور قاتلوں کو ملک سے بھگایا جا رہا ہے۔ ایک موقع پر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اسلام پسند دہشت گردوں کو اپنے ملک سے دور رکھیں گے۔اپنی تقریر میں امریکی صدر نے یہ عندیہ بھی دیا کہ امکاناً امریکا ماحولیاتی تبدیلیوں کو محدود رکھنے کی غرض سے ترتیب دیے جانے والے پیرس معاہدے سے دستبردار ہو سکتا ہے۔ ٹرمپ کے بقول وہ یکطرفہ پیرس معاہدے کے حوالے سے آئندہ دو ہفتوں میں ایک اہم اعلان کرنے والے ہیں۔اسی دوران ملکی میڈیا کے حوالے سے ٹرمپ کی ناپسندیدگی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ہفتے کے روز جس وقت ٹرمپ نے یہ تقریر کی، عین اسی وقت واشنگٹن میں سالانہ وائٹ ہاؤس کارسپونڈنٹس ڈنر جاری تھا، جس میں ٹرمپ نے شرکت نہیں کی۔ چھتیس سالوں میں یہ پہلا موقع تھا کہ جب ملکی صدر نے اس تقریب میں شرکت نہیں کی۔