واشنگٹن 13ستمبر (ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا ) معروف امریکی اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ نے موجودہ اور سابق امریکی اہلکاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ چین میں ہزاروں اوغر اور دیگر اقلیتی مسلمانوں کو حراستی کیمپوں میں قید رکھنے پر چین کے اعلیٰ اہلکاروں اور کمپنیوں کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ نے اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکی حکام چین کو جاسوسی آلات کی ٹکنالوجی کی فروخت کو بھی محدود کرنے پر غور کر رہی ہے، کیونکہ چین کے سیکیورٹی ادارے اور کمپنیاں سراغ رسانی کی یہ ٹکنالوجی تمام تر شمال مغربی چین میں اوغر اور مسلمانوں کی نگرانی کیلئے استعمال کرتی رہی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق وائٹ ہاؤس، محکمہٴ خزانہ اور محکمہٴ خارجہ میں کئی ماہ سے چین میں اقلیتی مسلمانوں کے خلاف مبینہ اقدامات کے حوالے سے چین کے خلاف سخت قدم اُٹھانے پر غور کرتے رہے ہیں۔
تاہم، دو ہفتے قبل امریکی کانگریس کے ارکان نے جب وزیر خارجہ مائک پومپیو اور وزیر خزانہ سٹیون منوچن کو سات چینی اہلکاروں کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کیلئے کہا تو ٹرمپ انتظامیہ نے فوری طور پر قدم اُٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔
ٹرمپ انتظامیہ اب تک چین کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے چین کے خلاف پابندیاں عائد کرنے سے ہچکچاتی رہی ہے اور اگر اب یہ پابندیاں عائد کر دی گئیں تو امریکہ کی چین سے ساتھ جاری تجارتی محاذ آرائی کے تناظر میں اختلافات مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں۔
چین میں ہزاروں مسلمانوں کو حراستی کیمپ میں قید رکھنے کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید کی جاتی رہی ہے۔ انسانی حقوق کے علبرداروں اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ شمال مغربی علاقے شن جیانگ میں ہزاروں مسلمانوں کی حراست چین میں کئی دہائیوں کے دوران ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی کی سب سے خراب صورت حال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 2012 میں برسر اقتدار آنے کے بعد چین کے صدر شی جن پن نے چین پر آمرانہ تسلط قائم کر لیا اور مغربی چین میں اوغر اور تبت کے لوگوں کے خلاف وسیع پیمانے پر ظلم و ستم کیا گیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے اتوار کے روز ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا کہ چین میں انسانی حقوق کی حالیہ خلاف ورزیاں 1966-1976 کے دوران رونما ہونے والے چین کے ثقافتی انقلاب کے بعد سے سنگین ترین ہیں۔ اس رپورٹ میں شن جیانگ کے 58 سابق شہریوں کے انٹرویو شامل کئے گئے ہیں جنہوں نے چین کے اعلیٰ حکام پر پابندیاں عائد کرنے کی سفارش کی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ حتمی پابندیوں کا اعلان وزارت خزانہ اور حکومت کے دیگر شعبوں کے علاوہ کانگریس سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔
حراست میں لئے گئے مسلمانوں کو زبردستی روزانہ منعقد ہونے والی کلاسوں میں جانے، اسلام کے بعض پہلوؤں سے انکار کرنے، چین کی ثقافت کا بغور جائزہ لینے اور کمیونسٹ پارٹی سے وفاداری کے اعلان پر مجبور کیا جاتا ہے۔ رہا ہونے والے کچھ افراد کا کہنا ہے کہ اُنہیں سیکیورٹی اہلکاروں نے اذیت کا نشانہ بنایا۔
چین نے اس عمل کو ’’تعلیم کے ذریعے تبدیلی‘‘ یا ’’انتہاپسندی کی مدافعت میں تعلیم‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ تاہم، اُنہوں نے ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کو حراست میں رکھنے کا الزام مسترد کر دیا ہے۔