بنگلور میں ایک روزہ تربیتی کارگاہ ؛پہلے صحافت کا کام سوال کرنا ہوتا تھا مگر آج الیکٹرانک میڈیا نے اس کے تقدس کو پامال کردیا؛ پروفیسر شافع قدوائی

Source: S.O. News Service | By Shahid Mukhtesar | Published on 23rd July 2018, 10:42 AM | ریاستی خبریں |

بنگلورو،23؍جولائی (ایس او نیوز) علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے صدر شعبہ ماس کمیونکیشن وجرنلزم پروفیسر شافع قدوائی نے آج صحافیوں کو آواز دی کہ وہ خبر بناتے وقت شخصی تعصبات سے گریز کریں اور خبر کے ذریعے اپنی رائے پیش کرنے کی ہرگز کوشش نہ کریں۔

آئی ایم اے پبلیشرز اور روزنامہ سیاست کی جانب سے آئی ایم اے وی کے عبیداللہ اسکول آڈیٹوریم میں اردو صحافیوں کیلئے منعقدہ ایک روزہ تربیتی کارگاہ کا افتتاح کرنے کے بعد انہوں نے بتایا کہ اخبار کی زبان ہمیشہ گفتگو اور عام بول چال کی زبان ہونی چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ اخبار میں آئی ہوئی خبر کے معنی تلاش کرنے کیلئے ڈکشنری (لغت) کا سہارا لیا جائے۔ ان کے مطابق صحافی پیدا ہوتے ہیں انہیں تیار نہیں کیا جاتا اور صحافت ایک فن ہے۔ موجودہ دور میں صحافت کے رول میں اضافہ ہوگیا ہے۔ دنیا میں جتنے نظریات اور مذاہب آئے ہیں سب کا خواب مساوات ہے۔ ایسے میں یکسانیت پر مبنی دنیا کے قیام میں صحافت کو اہم رول ادا کرنا ہے۔ پہلے صحافت کا کام سوال کرنا ہوتا تھا مگر آج الیکٹرانک میڈیا نے اس کے تقدس کو پامال کردیا ہے۔ اور ڈبیٹ کے نام پر خود جواب دینے اور فیصلے کرنے کا رواج چل پڑا ہے۔ آج کے دور میں ایک ٹوئیٹ بھی خبر بن رہی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صحافت کے چیلنجوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ جب سے صحافت میں تجارتی پہلو شامل ہوا تب سے خبریں بھی تجارتی نظر ئے سے ہی بننے کا رواج چل پڑا ہے۔ جس سے یہ شک پیدا ہونے لگتا ہے کہ صحافت کی ذمہ داری حکومت کی پاسداری کرنا ہوگئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ صحافت کے تین بنیادی مقاصد میں اطلاع دینا، تعلیم فراہم کرنا اور دلچسپی کی چیزیں فراہم کرنا ہے۔ جس کے ذریعہ ذہن سازی کا کام انجام دیا جاسکتا ہے۔ پروفیسر قدوائی نے بتایا کہ اخبار کی زندگی محدود ہوگئی ہے۔ جس کے بعد وہ ردی کاغذ کا حصہ بن جاتے ہیں اور اخبار کیلئے کل کے کوئی معنی نہیں ہوتے۔ خبر بناتے وقت صحافی کو چاہئے کہ وہ الفاظ سے کھیلے تاکہ قارئین کو راغب کیا جاسکے۔ انہوں نے بتایا کہ لفظی ترجمہ کیا جائے تو معنی بدل سکتے ہیں جیسا کہ ایک اخبار میں یوگی کے جتنا درشن کو یوگی کا عوامی فلسفہ بنا دیا گیا تھا۔ جہاں تک اردو صحافت کا تعلق ہے اس میں ترجمے میں زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی خبر کو لکھنے سے پہلے ’’کیا ہوا، کب ہوا، کیسے ہوا، کون اور کہاں‘‘ پر خیال رکھنا ضروری ہے تاکہ مکمل تفصیل قاری تک پہنچائی جاسکے۔ انہوں نے خبر نگاری کے اقسام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ معروضی، تشریحی اور تفتیشی خبر نگاری ہوتی ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ خبر میں کم سے کم الفاظ کا استعمال کیا جانا چاہئے اور غیرضروری تفصیلات سے گریز کرنا اہم ہے۔ انہوں نے اس دلیل کو ماننے سے انکار کردیا کہ اردو صحافت میں روزگار کے مواقع محدود ہیں اور کہا کہ اگر اردو کے ساتھ انگریزی اور ہندی سے واقف ہوں توں میڈیا میں بہتر مواقع موجود ہیں۔ اسی طرح سرخی جاذب نظر بنانا ضروری ہے تاکہ قارئین کو خبر پڑھنے میں دلچسپی پیدا ہو۔

ڈپارٹمنٹ آف ٹرانسلیشن اینڈ پبلی کیشن مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے ڈائرکٹر پروفیسر محمد ظفرالدین نے صحافتی ترجمہ، بنیادی اصول سے متعلق خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ترجمے تین طرح کے ہوتے ہیں۔ لفظی، بامحاورہ اور آزاد ترجمہ۔ صحافت میں آزاد ترجمہ ہوتا ہے، اردو صحافی ترجمے کے ساتھ تلخیص بھی کرتا ہے۔ انہوں نے صحافیوں کو آواز دی کہ ترجمے کے وقت لفظوں کو نہیں بلکہ معنی اور مفہوم کے غلام بنیں۔ انہوں نے بتایا کہ ترجمہ نگاری کا ذکر اصطلاح نگاری کے بغیر ناممکن ہے۔ اگر کوئی قابل قبول اور متبادل دستیاب ہو تو استعمال کیا جاسکتا ہے ورنہ انگریزی کے اصطلاحات بھی استعمال کیا جاسکے تاکہ ترسیل میں آسانی ہو اور قاری سمجھ سکے۔ انہوں نے ترجمے میں لغت کا سہارا لینے کی آواز دیتے ہوئے بتایا کہ لغت صرف معنی نہیں بتاتی بلکہ متبادل بھی دیتی ہے۔ اس لئے صحافیوں کو چاہئے کہ وہ لغت کو اپنا ساتھی بنائے۔ انہوں نے بھی خبروں میں آسان اور سہل زبان کے استعمال کی ضرورت پر زور دیا ۔ انہوں نے بتایا کہ صحافت عجلت میں لکھا گیا ادب ہے، اس میں ادب کی وسعت ضروری نہیں بلکہ قاری کے دل میں اترنا ضروری ہے۔ انہوں نے بھی اردو صحافت میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کی شکایت کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ لگن ہو تو صحافت کے امکانات روشن ہیں۔ اس کے لئے صحافت میں تعلیم وتربیت ضروری ہے۔ بغیر تعلیم وتربیت کے اس شعبے میں بلندی تک پہنچنا مشکل ہے۔ مولانا آزاد یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونکیشن میں تعلیم حاصل کرنے والے اکثر طلباء کا کیمپس سلیکشن ہوتا ہے اور شعبۂ ترجمہ کے طلباء بھی شعبۂ صحافت میں داخل ہورہے ہیں۔

بنگلورو یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے سابق صدر پروفیسر م ن سعید نے بتایا کہ صحافت میں ایسی زبان کا استعمال کیا جانا چاہئے جو ہر ایک کے ذہنی تقاضے کو پورا کرے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کارگاہ صحافیوں کے شعور کو بیدار کرنے کی کوشش ہے۔ اسی طرح صحافیوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اخبار کے قاری اور ٹارگیٹ کون ہیں۔ اخبار کے قاری معمولی سبزی فروش، چائے دکان کے گاہک سے لیکر افسر اور وزراء تک رہتے ہیں۔ ایسے میں اخبار کی زبان عام فہم اور سلیس ہونی چاہئے۔ یہاں اپنی قابلیتوں کا استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ کم پڑھے لکھے افراد کو بھی آسانی سے معلوم ہوجائے کہ اس سے کیا بیان کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ معلومات کیلئے حالات حاضرہ پر نظر رکھنے کے علاوہ باخبری کیلئے اخبار پڑھا جاتا ہے۔ ایسے میں صحافی کو چاہئے کہ تساہلی سے کام نہ لے بلکہ احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے صحافیوں کو آواز دی کہ وہ مطالعے کی عادت ڈالیں جس سے ذخیرہ الفاظ رہے گا اور لغت کے استعمال کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اسی طرح قاری کی سطح اگر پست ہے تو اسے تھوڑا بہت بلند کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر قاری اخبار پڑھنے میں الجھن محسوس کرے تو وہ اخبار اس قاری سے محروم ہوجائے گا۔ اسی طرح انہوں نے زبان کو سہل بنانے کیلئے انگریزی الفاظ کو امپورٹ کرنے کی مخالفت کی اور بتایا کہ انگریزی کا متبادل لفظ ہو تو اس کا استعمال کیا جائے تاکہ زبان محفوظ رہے۔ انہوں نے بتایا کہ اکثر یہ شکایت ملی ہے کہ اضلاع کے نامہ نگار اپنی غلطیوں میں سدھار نہیں لاتے۔ جبکہ تبدیلی کیلئے انہیں خود کوشش کرنی ہوتی ہے کیوں کہ وہ اس پیشے سے منسلک ہوگئے اور اس سے ان کی شناخت بنی ہوئی ہے۔

روزنامہ سیاست بنگلور کے بیورو چیف وریٹائرڈ آئی اے ایس عزیز اللہ بیگ نے بھی صحافیوں کو آواز دی کہ وہ مطالعہ کی عادت ڈالیں جبکہ اردو صحافیوں کی کمزوری مطالعہ نہ کرنا ہے۔ اردو ادب میں بڑا ذخیرہ موجود ہے اس کے مطالعہ سے انہیں زبان پر عبور حاصل ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ چونکہ اخبار کے دفاتر میں وقت کم رہتا ہے۔ آج کے اس سیمینار میں زبان، صحت زبان، ترجمے اور خبر کی ساخت پر جو باتیں ہوئی ہیں اس پر نامہ نگاروں کو غور کرکے رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر پیشے میں اس کے الگ اوزار اور ہتھیار ہوتے ہیں جس کے صحیح استعمال سے مہارت حاصل ہوتی ہے۔ صحافی کا ہتھیار اس کی زبان ہے اسی لئے صحیح زبان کا سیکھنا بیحد ضروری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انگریزی یا کنڑا کی نقالی کرنے کے بجائے زبان کے مزاج کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اس طرح کے تربیتی کارگاہ کا سلسلہ جاری رہے گا تاکہ اردو صحافت کا معیار بلند ہو۔ سیمینار کے اختتام پر شرکاء میں سے عبدالعلیم کلبرگی نے ڈویژنل سطح پر اس طرح کے کارگاہ منعقد کرنے کا مشورہ دئیے تو وہیں سینئر صحافی نیر ربانی نے بتایا کہ اس سیمینار سے کئی نئی باتوں کو سیکھنے کا موقع ملا ہے، انہوں نے مشورہ دیا کہ عملی تربیت کے ذریعے صحافیوں کیلئے کارگاہ کا انعقاد کیا جانا چاہئے۔ اس سیمینار میں روزنامہ سیاست، روزنامہ سالار، روزنامہ راشٹریہ سہارا، روزنامہ پاسبان کے کئی صحافیوں کے علاوہ ریاست کے مختلف اضلاع کے اردو صحافیوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور مسرت کا اظہار کیا۔ روزنامہ سیاست بنگلور کے ایڈیٹر رضوان اللہ خان نے کہا کہ اردو صحافت کے معیارکو مزید بلند کرنے کیلئے اس طرح کے کارگاہ بنگلور سے ہٹ کر ضلعی مراکز میں بھی کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اور انہوں نے کہا کہ اس کارگاہ میں ماہرین کے ذریعے جو رہنمائی حاصل ہوئی ہے اس پر حتی الامکان عمل کرتے ہوئے اردو صحافت کے اقدار کو مزید بلند کرنے کی عملی کوشش کی جائے گی۔ کارگاہ کا آغازقرأت کے ساتھ ہوااورجناب رضوان اللہ خان کے شکریہ پر اجلاس اختتام کو پہنچا۔آئی ایم اے پبلیشرز اور روزنامہ سیاست کی جانب سے شرکائے کارگاہ میں توصیفی اسناد معزز مہمانوں کے ہاتھوں تقسیم کی گئیں۔ 

ایک نظر اس پر بھی

بی جے پی کانگریس ایم ایل اے کو رقم کی پیشکش کر رہی ہے: وزیر اعلیٰ سدارامیا

کرناٹک کے وزیر اعلی سدارامیا نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیڈروں پر الزام لگایا ہے کہ وہ کانگریس کے ممبران اسمبلی کو اپنی حکومت کے قیام کے بعد رقم کی پیشکش کر کے اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

آئین میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی: سابق وزیر اعظم دیوے گوڑا

جنتا دل (ایس) (جے ڈی ایس) کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا نے منگل کو واضح کیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ بھلے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو لوک سبھا الیکشن 2024میں 400 سیٹیں مل جائیں آئین میں کوئی ترمیم نہیں ہو گی۔

بی جے پی نے کانگریس ایم ایل اے کو 50 کروڑ روپے کی پیشکش کی؛ سدارامیا کا الزام

کرناٹک کے وزیر اعلی سدارامیا نے ہفتہ کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر الزام لگایا کہ وہ کانگریس کے اراکین اسمبلی کو وفاداری تبدیل کرنے کے لیے 50 کروڑ روپے کی پیشکش کرکے 'آپریشن لوٹس' کے ذریعے انکی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں میں ملوث ہے۔