شام میں انتقال اقتدار جنیوا مذاکرات کے ایجنڈے کا اہم موضوع
آج ہونے والے اجلاس میں نئے دستور اور انتخابات پر بھی بات ہوگی:دی مستورا
جینوا،22؍فروری(ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا)شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اسیٹفن دی میستورا نے کہا ہے کہ کل جمعرات کو جنیوا میں شام کے بحران کے حل کے حوالے سے ہونے والے چوتھے اجلاس میں شام میں پرامن انتقال اقتدار ایجنڈے کا مرکزی موضوع ہوگا۔ اس کے علاوہ انتخابات اور دستور کی تدوین پر بھی غور کیا جائے گا۔یو این مندوب کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ چوتھے جنیوا اجلاس کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔ اقوام متحدہ کے مندوبین اور سفارت کار آج بدھ کو شامی حکومت اور اپوزیشن کے وفود سے بات چیت کریں گے، جس کے بعد کل جمعرات 23 فروری کو ہونے والے اجلاس میں سلامتی کونسل کی قرارداد 2254 کی روشنی میں شام میں انتقال اقتدار، دستور اور انتخابات کے انعقاد پر غور کیا جائے گا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جنیوا اجلاس کسی بھی فرقہ وارانہ اور فرقہ پرستی کے مفادات سے پاک ہوگا۔ اجلاس میں انتقال اقتدارکی پرامن منتقلی کے طریقہ کار، دستور کے لیے ٹائم فریم اور نئے دستور کے مطابق شفاف اور آزادانہ انتخابات کا انعقاد اہم موضوعات ہوں گے۔ اجلاس میں اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ انتخابات اقوام متحدہ کی نگرانی میں کرائے جائیں تاکہ وہ شفاف اور غیر جانب دار ہونے کے ساتھ ساتھ ان میں تمام شامی گروپوں کو بھرپور نمائندگی کا حق دیا جائے۔
ادھر سوئٹرزلینڈ کے شہر جنیوا میں شام میں طویل قتل وغارت کے بعد امن مساعی کے لیے ہونے والے اجلاس کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ اگرچہ اقوام متحدہ کی سابقہ قراردادوں کے بارے میں شامی حکومت اور اپوزیشن کے موقف میں تضاد موجود ہے۔جون 2012ء میں شام میں خانہ جنگی کو روکنے کے لیے جنیوا میں ہونے والے اجلاس کو جنیوا 1 کا نام دیا گیا۔ اس کے بعد اسی شہر میں شام میں جاری بغاوت کی تحریک کو پر امن طریقے سے روکنے اور مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے تین اجلاس ہوچکے ہیں۔جنیوا میں قائم اقوام متحدہ دفتر کے اندر ہونے والے اجلاس کے باہر کا ماحول کافی سرد ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بار جنیوا 4اجلاس میں شرکت کے لیے آنے والے حکومتی اور اپوزیشن کے وفود پہلے سے مختلف سوچ اور جذبے کے تحت بات چیت کے خواہاں ہیں۔ دونوں فریقین کا خیال ہے کہ چوتھا جنیوا اجلاس ماضی کے ناکام اجلاسوں کی طرح نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ اجلاس تنازع کے حل کے لیے ٹھوس قدم ثابت ہونا چاہیے۔
جنیوا اجلاس میں شامی اپوزیشن اور حکومتی نمائندوں کے براہ راست مذاکرات سے قبل انہیں الگ الگ دو جگہوں پر بٹھایا جائے گا۔ دونوں گروپوں کے لیے علاحدہ علاحدہ ہال مختص کیے گئے ہیں۔ اگرچہ مذاکراتی نمائندوں کے درمیان فاصلہ چند میٹر ہی کا ہوگا مگر دونوں کے نقطہ نظر میں چھ سال کی تباہ کاریوں، قتل اور بربادی پر پھیلا فاصلہ ہے۔ اس خلیج کو ختم کرنے کے لیے دونوں گروپوں کو اپنے اپنے موقف میں لچک دکھانا ہوگی۔شامی اپوزیشن کا اب تک موقف رہا ہے کہ صدر بشار الاسد اقتدار سے سبکدوش ہوجائیں اور اقتدار مکمل طور پر ایک با اختیار عبوری حکومت کے حوالے کیا جائے جس میں بشار الاسد کا کوئی کردار نہ ہو تاہم شامی رجیم اپوزیشن کے اس مطالبے کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔