امریکی ڈرون حملے میں عمر خراسانی کی 9 ساتھیوں سمیت ہلاکت کی تصدیق
اسلام آباد، 20 اکتوبر (ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا )کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) میں شامل ایک دہشت گرد گروپ جماعت الاحرار کا سربراہ عمر خالد خراسانی اپنے نو ساتھیوں سمیت افغانستان کے جنوب مشرقی صوبے پکتیا میں امریکا کے ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہوگیا ہے۔جماعت الاحرار کے ترجمان اسد منصور نے جمعرات کو کسی نامعلوم مقام سے فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے عمر خالد خراسانی کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے اور بتایا ہے کہ وہ پکتیا میں امریکا کے ایک حالیہ ڈرون حملے میں شدید زخمی ہوگئے تھے اور بدھ کی رات اپنے زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسے ہیں۔ترجمان نے کہا ہے کہ اس حملے میں خراسانی کے نو اور قریبی ساتھی بھی مارے گئے ہیں اور اب کالعدم جماعت الاحرار کی شوریٰ کونسل کا نئے امیر کے انتخاب کے لیے بہت جلد اجلاس بلایا جائے گا۔دوسری جانب طالبان کے ایک اہم کمانڈر نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ جماعت الاحرار کے ایک سینیر کمانڈر اسد آفریدی کو پہلے ہی نیا امیر مقرر کیا جا چکا ہے۔امریکا نے حالیہ دنوں میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی علاقے اور افغانستان میں ستر سے زیادہ ڈرون اور زمینی حملے کیے ہیں اور ان میں تیس سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ امریکا نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی افغانستان اور جنوبی ایشیا کے بارے میں نئی پالیسی کے اعلان کے بعد ڈرون حملہ میں اضافہ کردیا ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان سرزمین پر بغیر پائیلٹ طیارے کے میزائل حملے میں پاکستانی طالبان کمانڈر کی ہلاکت امریکی اور پاکستانی انٹیلی جنس کے درمیان تعاون کی بھی مظہر ہے اور امریکا نے پاکستان کی ان شکایات پر کا ن دھرنا شروع کردیے ہیں کہ پاکستانی طالبان جنگجوؤں نے افغانستان میں محفوظ ٹھکانے بنا رکھے ہیں اور وہ وہاں سے پاکستانی سرزمین پر حملے کررہے ہیں ،اس لیے انھیں ڈرون حملوں میں نشانہ بنایا جائے۔عمر خالد خراسانی کا پاکستان کے وفاق کے ز یر انتظام قبائلی علاقے مہمند ایجنسی سے تعلق تھا۔وہ ماضی میں وہاں صحافی کے طور پر کام کرتا رہا تھا۔اس کا اصل نام عبدالولی تھا اور وہ کالعدم جنگجو گروپ تحریکِ طالبان پاکستان کے بانی ارکان میں سے تھا۔وہ اس تنظیم کے داخلی حلقوں میں ایک سخت گیر جنگجو کے طور پرجانا جاتا تھا۔اس کوٹی ٹی پی کی خیبر ایجنسی میں شاخ کی بھی کچھ عرصے کے لیے اضافی ذمے داری سونپی گئی تھی۔ اس نے وہاں حکومت کے حمایت یافتہ لشکروں کے خلاف ایک خونیں مہم برپا کی تھی اور ان کے خلاف متعدد تباہ کن حملے کیے تھے۔عمر خالد خراسانی کو مہمند ایجنسی میں ٹی ٹی پی کی شاخ کا سربراہ بھی بنا یا گیا تھا لیکن جب اس نے جماعت الاحرار کے نام سے اپنا الگ دھڑا قائم کیا تھا تو اس کو ٹی ٹی پی سے نکال دیا گیا تھا۔اس نے احرارالہند کے نام سے دہشت گردوں کے ایک اوردھڑے کی بھی قیادت کی تھی۔اس دھڑے نے حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان 2014ء میں جنگ بندی کے زمانے میں متعدد حملوں کی ذمے داری قبول کی تھی۔ان میں اسلام آباد میں ایف ایٹ مرکز میں واقع ماتحت عدالتوں پر حملہ بھی شامل تھا۔اس میں بارہ افراد مارے گئے تھے۔بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خراسانی کے القاعدہ اور اس کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری سے بھی مضبوط روابط استوار تھے۔جماعت الاحرار نے لاہور میں واہگہ بارڈر کے علاقے میں دہشت گردی کے ایک تباہ کن حملے کی ذمے داری قبول کی تھی۔اس میں اکسٹھ افراد ہلاک اور ایک سو سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے۔اس دہشت گرد گروپ نے اس سال کے اوائل میں لاہور کی مصروف مال روڈ پر واقع چئیرنگ کراس پر خودکش بم حملے کی بھی ذمے داری قبول کی تھی۔اس میں پولیس کے تین سینیر افسروں سمیت تیرہ افراد مارے گئے تھے۔اس نے حالیہ مہینوں کے دوران میں افغانستان کے سرحدی علاقوں سے بھی پاکستانی علاقے میں سکیورٹی فورسز پر متعدد حملوں کی ذمے داری قبول کی تھی۔واضح رہے کہ ٹی ٹی پی کے ایک سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے چند ماہ قبل اپنی گرفتاری کے بعد جماعت الاحرار کے بارے میں چشم کشا انکشافات کیے تھے اور اس کے سینیر کمانڈروں پر الزام عاید کیا تھا کہ وہ افغان انٹیلی جنس ایجنسی اور بھارت کی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالسیس ونگ ( را) کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں۔اس کے کمانڈر اپنے ذاتی مفادات کے لیے ان دونوں ایجنسیوں کے آلہ کار کے طور پر استعمال ہورہے ہیں اور پاکستان میں شہریوں اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو اپنے حملوں میں نشانہ بنا رہے ہیں۔