تین طلاق : دیوانی معاملہ کو فوجداری رنگ میں رنگنے کی کوشش
ممبئی،20ستمبر(ایس او نیوز؍یواین آئی) نئی دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت میں ہوئی کابینہ کی میٹنگ میں تین طلاق کوغیر قانونی قرار دینے سے متعلق آرڈیننس کو منظوری دی گئی۔واضح رہے کہ راجیہ سبھا میں اس سے متعلق بل کو منظور کرانے پر کانگریس کے تعاون نہیں کرنے کا الزام وزیرقانون وانصاف روی شنکر پرساد نے لگاتے ہوئے کہاکہ اس کی وجہ سے حکومت کو تین طلاق کو غیرقانونی بنانے کے لئے آرڈیننس کا سہارا لینا پڑا ہے ۔ ووٹ بینک کے دباو میں کانگریس نے راجیہ سبھا میں تین طلاق بل کی حمایت نہیں کی،جبکہ دنیا کے 22 مسلم ملکوں میں تین طلاق پر پہلے سے ہی پابندی ہے ۔
ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں اسے تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔حالانکہ آرڈی ننس جموں و کشمیر میں نافذ نہیں ہوگا۔دوترمیم کے ساتھ آرڈننس کو منظوری دی گئی ہے ۔اس تعلق سے ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے ۔راجیہ سبھا میں کانگریس کے ممبرحسین دلوائی نے تین طلاق پر مرکزی کابینہ کے ذریعہ آرڈننس کو منظوری دینے پر اپنے ردعمل میں کہا کہ تین طلاق کا ملک میں جاری طریقہ کار کو کسی میں حال میں منظورنہیں کیا جاسکتا ہے ، لیکن مذکورہ ترمیم شدہ آرڈننس ناقابل قبول ہے کیونکہ طلاق کا معاملہ ایک سول معاملہ ہونے کے باوجوداسے فوجداری زمرے میں شامل کردیا گیا ہے ۔انہوں نے بی جے پی پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اس معاملہ کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے ،دراصل قانون برائے گھریلو تشددکے تحت متعلقہ باتیں آجاتی ہیں ،لیکن حکومت نے اس جانب توجہ نہیں دی اور انہیں چاہیئے کہ ایسے معاملات کو فاسٹ ٹریک کورٹ میں چلایا جائے اورتین مہینے میں اس پر فیصلہ سنایا جائے ۔ایسے معاملات دیوانی زمرے میں آتے ہیں ،لیکن اقلیتی فرقے کے معاملہ میں اسے تعزیراتی قانون کے تحت لانے کی کوشش کی گئی ہے ۔حسین دلوائی نے مسلمانوں سے بھی اپیل کی کہ طلاق کے اس طریقہ کو ختم کرنے کے لئے معاشرے میں مہم چلائی جائے ،جس کے سبھی خلاف ہیں۔
انجمن اسلام کے سی ای او اور حج کمیٹی کے سابق چیف ایکزیکٹیو افسر شبیہ احمد نے کہا کہ اس مسئلہ پر ان کی رائے واضح اور صاف ہے کہ مذکورہ آرڈننس بی جے پی حکومت کی منفی سوچ کا نتیجہ ہے ،دراصل مسلمانوں نے بھی طلاق کے اس طریقہ کارسے مسلمانوں میں بھی بے چینی ہے اور حکومت کے ذریعہ قانون بنائے جانے کے اعلان پرکوئی احتجاج نہیں کیا ،سپریم کورٹ کے فیصلہ پر حکومت نے قانون بنانے کا اعلان کردیا اور راجیہ سبھی میں بل منظورنہ ہونے پرآرڈننس کا سہارا لیا گیا ہے ۔جبکہ دیوانی معاملہ کو کریمینل شکل دے دی گئی ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کے رویہ سے یہ سوچنے پر مجبورہونا پرتا ہے کہ کیاان کا یہ ایک ہی مسئلہ ہے ،اگر حکومت واقعی اقلیتی فرقے کے سلسلے میں ایماندارہے تو اسے چاہیئے کہ ملک میں مسلمانو ں کی 25 فیصد آبادی والے علاقوں میں رہائشی اسکول قائم کرے تاکہ تعلیمی میدان انہیں ترقی حاصل ہوسکے ۔ اور حکومت اس سلسلے میں دراندازی نہ کرے ۔شبیہ احمد نے مسلمانوں کومشورہ دیا کہ انہیں اپنا گھر کو درست کرنا ہوگا،علمائے کرام کو سمجھنا ہوگاکہ اس صورتحال سے کیسے نمٹا جائے اور اگر تین طلاق کا معاملہ قابل اعتراض ہے تو پھر شرعی طورپر اسے کیسے شریعت کا حصہ قراردیا جاسکتا ہے ۔ اس ضمن میں فوری قدغن کی ضرورت ہے ۔سابق اعلیٰ پولیس افسر اور عوامی وکاس پارٹی کے صدر شمشیر خان پٹھان نے مرکزی کابینہ کے ذریعہ تین طلاق آرڈننس کو توہین عدالت قرار دیا ہے ،کیونکہ سپریم کورٹ نے اس معاملہ میں پانچ مہینے میں قانون بنانے کا حکم دیا تھا اور اس لحاظ سے یہ آرڈننس غیر آئینی ہے ۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ صدرجمہوریہ کو اس آرڈننس کو منظورنہیں کرنا چاہیئے ،کیونکہ معاملہ راجیہ سبھا میں زیرالتواۂے ، بلکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لائبورڈکو بھی چاہیے کہ اس تعلق سے صدرسے رجوع کرے اور شنوائی نہ ہونے پرصدر کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے ۔اور پابندی لگوائی جاسکتی ہے ۔سماجی رہنمائسلیم الوراے نے اس بارے میں کہا کہ مودی حکومت اگروہ مسلمان خواتین کی فلاح وبہبود ہمدردی ہے تو چاہیئے کہ انہیں تعلیمی اور ملازمت کے میدانوں میں ریزرویشن دے تاکہ ان کی ترقی یقینی بنائی جاسکے ۔ سلیم الوارے نے وزیراعظم نریندرمودی کو ٹوئیٹ کیا ہے ۔