شرعی وکلاء کی زوردار بحث سے سرکار اور مدعیان اصلاح وتجدید بیک فٹ پر!
نئی دہلی 18/مئی (ایس او نیوز؍ محمد شارب ضیاء رحمانی) کپل سبل کے دلائل کو سمجھنے کے لیے پہلے تو عناد اور مخالفت برائے مخالفت کے خول سے باہرنکل کر وسیع ذہن کے ساتھ سوچنا ہوگا ورنہ کج فہمی اور تنگ نظری کے ساتھ ان کے دلائل کو سمجھنا مخالفین حدیث اور مخالفین فیصلہ رسولﷺ کے بس میں نہیں ہے۔ پھر کپل سبل کے الفاظ کیا تھے اور کیاوہی الفاظ تھے جسے سنگھی میڈیا (جس پر بعض لوگ قرآن وحدیث سے زیادہ ایمان رکھنے لگے ہیں ) کچھ اور بناکر پیش کررہاہے ساتھ ہی کس سیاق وسباق اور کس نوعیت کے ساتھ انہوں نے وہ بات کہی ان سب کاجائزہ لیے بغیر محض مخالفت برائے مخالفت زیبانہیں الفاظ اور الزامات کی بارش سے یہ عناد واضح ہے چونکہ کھسیانی بلی کے پاس نوچنے کے لیے اب کھمبا بھی نہیں بچاہے اس لیے کہیں نہ کہیں توبھڑاس نکالنی ہی ہے نا۔
سپریم کورٹ نے پہلے ہی دن کہاتھا کہ اگریہ شریعت اورمذہب کا معاملہ ہوگا توہم مداخلت نہیں کریں گے بورڈ اورجمیعة نے اسی کو عہد نبوی سے ثابت کرکےکورٹ کے سامنے واضح کردیا ہے کہ یہ خالص مذہبی معاملہ ہے بحث کے پہلے دن حکومت نے اسے مذہب سے الگ بتاتے ہوئے دلیل دی تھی کہ اگریہ مذہب کامعاملہ ہے تو اسلامی ملکوں میں طلاق ثلاثہ پر پابندی کیوں ہے فریق دفاع نے حکومت کے دونوں طلسم کوتوڑا ہے پہلے تو 1400 سال سے اس پر عمل کوثابت کیا اور اورچودہ سوسال کا مطلب قرون اولی ہے ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ قرآن میں کسی چیز کا مذکورنہ ہوناخلاف قرآن نہیں ہے مسلمانوں کے لیے قرآن وحدیث اللہ کا کلام اوررسول کے فیصلے دونوں دین کی بنیادیں ہیں اور ان بنیادوں میں طلاق ثلاثہ ثابت ہے لہذا یہ سراسر مذہب کا معاملہ ہے اور آپ کہہ چکے ہیں کہ مذہبی امور میں مداخلت نہیں کریں گے جس طرح آپ کسی کے عقیدے پر جبر نہیں کرسکتے اورنہ کسی ایک عقیدہ کو ماننے پر مجبورکیاجاسکتاہے اس سلسلے میں انہوں نے ضمنا مثال دی جس کی دلیل کے طور پرکوئی قانونی حیثیت نہیں ہے رہی بات بابری مسجد اوررام مندر کی تواس کی نوعیت بالکل مختلف ہے سپریم کورٹ میں مقدمہ ملکیت کاہے اورملکیت آستھا سے نہیں ثابت ہوتی لیکن کج فہم معاملے کوادھرسے ادھر گول مول کررہے ہیں کپل سبل پر یہ بھی الزام لگایاگیاکہ دودن سے وہ عدالت میں جاہلانہ گفتگو کررہے ہیں اگر ان کے عقیدہ کی دلیل کو مسترد بھی کردیاجائے پھر بھی اس کے علاوہ ان کے تمام دلائل بہت مضبوط ہیں اور بہت جرات مندانہ بحث کی ہے جس کی مخالفت کج فہمی اور دوسرے عناد پر ہی مبنی ہے کورٹ کو کپل سبل سے کہناپڑا کہ آپ کیاچاہتے ہیں کہ ہم طلاق ثلاثہ پر سماعت ہی نہ کریں کپل سبل نے پھر پوری جرات کے ساتھ کہاکہ آپ کواس کابالکل حق نہیں ہے آپ کو ہرگز سماعت نہیں کرنی چاہیے ریفارم کے نام پر مذہب میں مداخلت نہیں کی جاسکتی پھرعدالت یہ کہنے پر مجبور ہوئی کہ جب معاملہ کورٹ میں آیاہے توسماعت کرلیتے ہیں کپل سبل کی اس جرات کی داد دینی چاہیے۔
دفاعی وکلاء نے یہ بھی کہاکہ سرکار اسے غیرمذہبی معاملہ ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے وہ اب غیرمذہبی بتانے سے پیچھے ہٹ کر صرف خواتین کے حقوق کی دہائی دینے لگی ہے رہی بات اسلامی ملکوں میں تین طلاق پر پابندی کی تویہ بھی غلط ہے اس نے پاکستانی عدالتوں کے فیصلے کی نقل بھی پیش کی جن میں طلاق ثلاثہ کونافذ کیاگیاہے چونکہ اب ان کے دونوں مفروضوں کی ہوا نکل گئی ہے اس لیے اب چینلوں نے .روشن خیالوں نے معاملہ کو دوسرارخ دینے کی کوشش کی ہے کافی ہائوس کے محققین بھی ابتدا میں صرف حنفی مسلک اور *شروع سے اختلافی* مسئلہ بتارہے تھے لیکن وہ اب تک یہ بتانے میں ناکام ہیں کہ شروع سے کیا مرادہے اور کب سے اختلافی مسئلہ ہوا جوصرف حنفی مسلک کی بات کررہے تھے ان کاطلسم بھی ٹوٹا کیونکہ یہ امت کے سواد اعظم عہدرسالت صحابہ وصف اول کے محدثین کامتفق علیہ مسلک ہے بعد کے چند لوگوں کااختلاف ہے اس لیے یہ کہنادرست نہیں ہے کہ صرف احناف کامسلک ہے بلکہ یہ کہاجائے کہ بعد کے چند لوگوں کوچھوڑ کر ابتداء سے سب لوگوں کاتین طلاق کے وقوع پر اتفاق ہے دراصل مدعیان اصلاح وتجدید نے سوچاتھا کہ سرکار ان کے موقف کی تائیدعدالت میں کرے گی لیکن ایسا زوردارطمانچہ پڑاہے کہ بوکھلاہٹ میں اب *غیرقرآنی خلاف قرآن مسلم ممالک* کی بات چھوڑ کر کچھ کاکچھ بک رہے ہیں جب کہ ان معاملات کی طرح سپریم کورٹ میں بحث کی نوعیت سیاق وسباق کی یقینا انہیں معلومات نہیں ہوں گی اور اس سے یہ طے ہوگیا ہے کہ ان کے علم کی طرح فہم کاجغرافیہ بھی سمٹا ہوا ہے۔