مرکزی کاروباری ضلع میں مزید تین پارکنگ مقامات
بنگلور،25؍اپریل(ایس او نیوز) بی بی ایم پی بہت جلد شہر کے مرکزی تجارتی ضلع میں سواریوں کی پارکنگ کے لئے تین ہمہ منزلہ عمارتیں تعمیر کرنے والی ہے۔ریاستی وزیر داخلہ جی پرمیشور کا کہنا ہے کہ جب ان عمارتیں کا استعمال شروع ہو جائے گا تو ،چونکہ یہاں بڑی تعداد میں سواریوں کے روکنے کی سہولت رہے گی ، شہر کے راستوں پر ٹرافک کے اژدھام پر اس کے ذریعہ قابو پایا جا سکتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ’’اس کے علاوہ شہر کی پولیس نے مختلف پولیس تھانوں کے سامنے روکی گئی ضبط کردہ سواریاں جن پر کسی نے دعویٰ نہیں کیا ہے ، انہیں فروخت کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے، اب تک پولیس نے آٹھ ہزار سواریاں فروخت کردی ہیں‘‘۔انہوں نے بتایا کہ اس طرح کی سواریوں کو فروخت کرنے کے لئے پولیس کو عدالت سے منظوری حاصل کرنا پڑتا ہے، عدالت کی اجازت حاصل ہوجانے کے بعد مزید سواریاں بھی فروخت کردی جائیں گی۔واضح رہے کہ حادثات وغیرہ کے بعد ضبط کی جانے والی سواریاں اور وہ سواریاں جن پر کوئی دعویٰ نہیں کرتا، عام طور پر ٹرافک پولیس تھانوں کے سامنے کھڑی کی جاتی ہیں جس کی وجہ سے راستے تنگ ہو جاتے ہیں۔جس وقت کے جے جارج ریاست کے وزیر داخلہ تھے تو ، اس طرح کی سواریوں کو روکنے کے لئے شہر کے مختلف مقامات پر چار جگہوں کی نشاندہی کی گئی تھی،مگر اس منصوبے کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔ماضی میں شہر کی پولیس نے اس طرح کی سواریوں کو روکنے کے لئے سنٹرل آرمڈ فورسس کے میدانوں کو استعمال کرنے کی ناکام کوشش کی تھی، یہ منصوبہ اس وجہ سے ناکام رہا کیونکہ ، سی اے آر کے میدان عام طور پر مختلف پروگراموں کے لئے استعمال کئے جاتے رہتے ہیں۔اس کے علاوہ ایک اہم مسئلہ عوام کی طرف سے جگہ جگہ سواریاں روک دینے کا ہے۔اکثر گاڑیاں چلانے والے اپنی مرضی سے جہاں چاہے سواریاں روک دیتے ہیں۔مجسٹک کے علاقہ میں یہ وبا بہت عام ہے ، لوگ نو پارکنگ کے مقامات پر آڑی ترچھی سواریاں روک کر سنٹرل بس اسٹینڈ اور سٹی ریلوے اسٹیشن سے اپنے دوست احباب کو لینے کے لئے چلے جاتے ہیں اور واپسی میں ٹرافک پولیس کو ایک سو روپئے کا جرمانہ بھر کر سواریاں لے جاتے ہیں۔اے سی پی (ٹرافک) جنہوں نے اپارپیٹ سب ڈویژن میں خدمات انجام دی تھی نے ایک مقامی انگریزی اخبار کو بتایا کہ’’یہ لوگ ہماری بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے، اس سے پہلے کہ ہم انہیں نو پارکنگ کی جگہ سے سواریاں اٹھانے کہ لئے کہیں، فوراً وہ لوگ ایک سو روپئے نکال کر دیدیتے ہیں اور رسید طلب کرنے لگتے ہیں‘‘۔ان گاڑی سواروں کے لئے ، متعینہ پارکنگ مقامات پر اپنی سواریاں روکنے کے مقابلہ میں یہ شکل زیادہ آسان اور سستی لگتی ہے، پولیس افسر نے بتایا کہ’’پارکنگ کے متعینہ مقامات پر کاریں روکنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پارکنگ کے زیادہ پیسے بھی خرچ کئے جائیں اور سواریاں باہر نکالنے کے لئے وقت بھی ضائع کیا جائے۔اسی لئے وہ لوگ راستوں پر ہی گاڑیاں پارک کر دیتے ہیں اور صرف سو روپئے کا جرمانہ بھر کر چھوٹ جاتے ہیں‘‘۔پولیس کا کہنا ہے کہ بس اڈوں اور ریلوے اسٹیشنوں کے آس پاس عام طور پر صبح 5-30 سے 7-30 بجے کے درمیان نو پارکنگ کے مقامات پر بڑی تعداد میں کاریں روکی ہوئی نظر آتی ہیں۔پولیس افسر کا کہنا ہے کہ اس صورت حال کے ازالہ کے لئے یا تو لوگوں کو ازخود اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے یا پھر نو پارکنگ کی جگہوں میں سواریاں روکنے پر بڑی مقدار میں جرمانہ کی رقم لگائی جانی چاہئے جس کے خوف سے لوگ اپنی اس غلطی کا ازالہ کر سکتے ہیں اور اسی طریقہ پر نظم و ضبط کی بحالی ممکن ہو سکتی ہے۔