مجھ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے کا اہم مقصد یہی ہے کہ میں بھٹکلی مسلمان ہوں اور ایک مولوی ہوں؛ جیل سے رہا ہونے کے بعد مولوی شبیر گنگولی کا بیان
بھٹکل 11اپریل (ایس او نیوز) مجھ پر صرف اس بناء پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے کیونکہ میں بھٹکلی مسلمان ہوں اور ایک مولوی ہوں، ورنہ میرا کسی سے کوئی تعلق نہیں تھا، میرے اوپر جو بھی الزامات لگائے گئے، وہ تمام کے تمام جھوٹے تھے اور اُس میں کوئی سچائی نہیں تھی، میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ میرے اوپر ایسا ظلم ڈھایا جائے گا۔یہ بات دہشت گردی کے الزامات میں آٹھ سال جیل کی سلاخوں میں کاٹنے کے بعد عدالت کی طرف سے باعزت بری ہوکر بھٹکل اپنے گھر پہنچنے والے مولوی شبیر حُسین گنگولی ندوی نے کہی۔
مخدوم کالونی میں واقع اپنے چھوٹے سے خستہ حال مکان کے صحن میں اخبارنویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولوی شبیر نے اپنے اوپر ہونے والے ظلم وستم کے تعلق سے مختصر بات کرتے ہوئے مزید بتایا کہ میں سن 2008 سے جیل میں ہوں اور آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ مجھ پر 2010 (بنگلور اسٹڈیم ) میں ہوئے بم دھماکے کا کیس بھی فٹ کیا گیا۔ مگر مجھے عدلیہ پر بھروسہ تھا اور عدالت نے میرے بھروسے کو مزید تقویت پہنچائی ، میرے ساتھ انصاف کیا اور مجھ پر عائد تمام الزامات سے مجھے باعزت بری کردیا۔ مولوی شبیر نے اس بات کی توقع ظاہر کی کہ اس وقت دیگر جتنے بھی بے قصور نوجوان جیلوں میں بند ہیں، اُن کے ساتھ بھی انصاف ہوگا اور وہ بھی رہاہوں گے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ گرفتاری کے بعد آپ پر سب سے زیادہ پریشان کن مرحلہ کب آیا، مولوی شبیر نے بتایا کہ وہ پونے میں ایک مسجد میں امامت کرتا تھا اور مسجد میں ہی رات کو سوتا تھا کہ ایک رات اچانک قریب ایک بجے اے ٹی ایس پولس کی بھاری فورس نے پوری مسجد کو گھیر لیا اور مجھے گرفتار کرکے لے گئے، وہاں لے جانے کے بعد رات بھر مجھے مارا گیا اور ظلم و ستم کے ایسے پہاڑ توڑے گئے کہ بیان سے باہر ہے۔بدن کے نازک اور خفیہ حصوں میں انہوں نے ظلم کی انتہاء کردی اور مجھ پر جھوٹے الزامات لگائے گئے۔ مزید بتایا کہ اے ٹی ایس نے مجھے صرف دہشت گردی کے الزامات کے تحت پکڑا تھا، لیکن جب میرے خلاف اُنہیں کوئی ثبوت نہیں ملا تو انہوں نے نقلی نوٹ برآمد ہونے کا کیس بناکر مجھے پھنسادیا، سچ بات یہ ہے کہ اُنہیں میرے پاس سے ایک روپیہ بھی نہیں ملا تھا۔مزید کہا کہ بھلے مجھے نچلی عدالت نے پانچ سال کی سزا سنائی اور میں نے اپنی سزا بھی مکمل کرلی، مگر نچلی عدالت کے فیصلے کو ممبئی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے اور مجھے پوری اُمید ہے کہ ہائی کورٹ سے مجھے انصاف ملے گااور میں بے قصور ثابت ہوجاؤں گااورمجھ پر لگا نقلی نوٹ برآمد ہونے کا داغ بھی دُھل جائے گا۔انہوں نے راتوں کو اُٹھانے اوربے دریغ پیٹائی کرنے بالخصوص شرمگاہ والی جگہوں پر تیزاب جیسی تیز چیزیں ڈال کر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے کی باتوں کو یاد کرتے ہوئے اُس سے پناہ مانگی۔ مولانا شبیر نے مسلم اداروں اور ذمہ داروں سے درخواست کی کہ وہ جیلوں میں بند تمام مسلم نوجوانوں کو انصاف دلائیں، اُن کے لئے قانونی لڑائی لڑیں۔ انہوں نے اس بات پر فخر کا اظہار کیا کہ وہ ایک ہندوستانی ہیں اور ہندوستان میں لوگوں کو انصاف ضرور ملتا ہے۔ انہوں نے آگے بتایا کہ عدالتوں میں بھلے تاخیر سے ہی سہی، مگر یہاں انصاف ملتا ہے، سچائی کی جیت ہوتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر نچلی عدالتوں میں انصاف نہیں ملتا تو اوپر دوسری بھی عدالتیں ہیں اور ہم ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ بھی جاسکتے ہیں ۔
پریس کانفرنس میں APCR کی جانب سے ضلع اُترکنڑا کے جنرل سکریٹری قمر الدین مشائخ نے بتایا کہ جیسے ہی یہ معاملہ APCR کے پاس آیا، ہم نے ابتداء سے ہی کیس ہینڈل کرنا شروع کیا۔ بالخصوص ایڈوکیٹ ارشد بالور کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ارشد بالور کی رہنمائی میں ہی یہ معاملہ آگے بڑھایا گیا تھا اور آج جاکر ہمیں کامیابی ملی اور شبیر جسے ہم ابتداء سے ہی بے گناہ اور بے قصور سمجھ رہے تھے، عدالت نے بھی اُسے بے قصور تسلیم کیا اور اُس کو رہائی نصیب ہوئی۔
APCR کی جانب سے ایڈوکیٹ ارشد بالور نے مولوی شبیر حُسین ندوی کے کیس کے تعلق سے تمام جانکاری دی کہ اُسے کس طرح پونے میں گرفتار کیا گیا، پھر وہاں سزا کاٹنے کے بعد معاملہ ختم ہوتا دیکھ کر 2010 میں بنگلور میں ہوئے چنا سوامی اسٹڈیم پر بھی دھماکہ کرنے کا الزام ان کے سر لگایا گیا۔ وہاں سے بھی بے قصور ثابت ہونے پر اب مینگلور کے قریب اُلال میں درج دہشت گردی کے کیس سے بھی اُنہیں چھٹکارہ مل گیا ہے، ارشد بالور نے مزید بتایا کہ انڈین مجاہدین سے تعلق ہونے، بھٹکل کے ریاض اور اقبال سمیت یاسین کے ساتھ تعلق ہونے ، بھٹکل جالی بیچ پر میٹنگ میں شریک ہوکر جہادی لٹریچر تقسیم کرنے اور جہاد کا درس دینے جیسے الزامات عائد کرتے ہوئے مولوی شبیر ملزم نمبر 13 تھا۔ ان کے مطابق مولوی شبیر اُلال کی ایک مسجد میں امامت کرتا تھا، جہاں سے پولس کے پکڑنے کے خوف سے وہ پونے چلا گیا اور پونے میں ہی امامت کرنے لگا، جہاں ممبئی اے ٹی ایس نے اسے گرفتار کیا تھا۔ پریس کانفرنس میں اے پی سی آر کے سرگرم رکن مولانا زُبیر مارکٹ ندوی بھی موجود تھے۔ جبکہ مقامی لوگوں کی بھی ایک بھیڑ پریس والوں کو گھیرے ہوئے تھی۔
بتایا گیا ہے کہ مینگلور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں مولوی شبیر کے دہشت گردی کےمعاملات کے کیسس کی پیروی اُڈپی کے سنئیر وکیل شانتا رام شٹی نے کی ۔
مولوی شبیر گنگولی کی رہائی پر ساحل آن لائن کی خصوصی وڈیو رپورٹ: