ملک میں مسلمانوں کی تعلیمی حالت تشویشناک، حالات بہتر بنانے کیلئے ماہرین کمیٹی کی طرف سے مرکز کو رپورٹ پیش    

Source: S.O. News Service | By Jafar Sadique Nooruddin | Published on 12th July 2017, 1:41 AM | ریاستی خبریں |

بنگلورو:11/ جولائی(ایس اونیوز) ہندوستان کے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا اعتراف کرتے ہوئے ماہرین کی ایک کمیٹی نے مرکزی حکومت کو رپورٹ پیش کی ہے۔ دسمبر 2016کے دوران مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے سکریٹری افضل امان اللہ کی قیادت میں مرکزی حکومت نے گیارہ رکنی کمیٹی تشکیل دی، جس کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ اقلیتوں کی تعلیمی صورتحال کاجائزہ لیں۔ مرکزی وزارت فروغ انسانی وسائل کے مالی تعاون سے اس کمیٹی نے مسلمانوں کی تعلیمی حالت کے جائزے کا کام شروع کیا، کمیٹی نے جو جائزہ لیا ہے اس کے نکات اب منظر عام پر آچکے ہیں۔ کمیٹی نے حکومت سے سفارش کی ہے کہ مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کیلئے زیادہ تعلیمی اداروں کی شروعات کی جائے، سنٹرل یونیورسٹیوں اور کمیونٹی کالجس کے ریاستی سطح پر قیام کو منظوری ملنی چاہئے۔ اسی طرح تعلیمی نظام کو سہ درجاتی بناکر مسلمانوں کیلئے مختلف درجوں پر تعلیمی ادارے مہیا کرائے جائیں۔بنیادی وثانوی سطح پر اقلیتوں کیلئے ملک بھر میں 211 ایسے اسکولوں کے قیام کی سفارش کی گئی ہے جو کیندریہ ودیالیہ کے طرز پر چلتے ہوں، اس کے علاوہ ہر ریاست میں 25کمیونٹی اسکول اور اعلیٰ تعلیم کیلئے مرکزی سطح کی یونیورسٹی کے قیام کا بھی مشورہ دیا گیا ہے۔ کمیٹی نے حکومت کو بتایا کہ ملک میں 167 علاقے ایسے ہیں جہاں پر مسلمانوں کی آبادی اکثریت پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے چالیس اہم شہر ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کا دبدبہ ہے۔ ان علاقوں میں تعلیمی اداروں اور مرکزی یونیورسٹیوں کے قیام پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مرکز کی طرف سے جو اسکول اور کالج مسلمانوں کیلئے قائم کئے جائیں ان میں سی بی ایس سی نصاب کے ساتھ تجارتی تعلیم کا بھی بندوبست کیا جانا چاہئے۔ 25 ریاستوں میں مسلمانوں کو فروغ ہنر سے آراستہ کرنے کیلئے مختلف کورسوں کی شروعات پر بھی زور دیا گیا ہے۔ کمیٹی نے محکمہئ اعداد وپلاننگ سے سفارش کی ہے کہ جن علاقوں میں اقلیتوں کی آبادی ہے وہاں بہتر تعلیمی سہولیات کی فراہمی کیلئے مقامات کی نشاندہی کے ساتھ فنڈز کی فراہمی کی طرف بھی توجہ دی جائے۔ کمیٹی کی طرف سے مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور مختار عباس نقوی کو سفارشات پر مشتمل رپورٹ پیش کی جاچکی ہے، تاہم اس رپورٹ پر مرکزی حکومت کا ردعمل کیا ہوگا اب تک کچھ بھی سامنے نہیں آیا ہے۔

ایک نظر اس پر بھی

بی جے پی نے کانگریس ایم ایل اے کو 50 کروڑ روپے کی پیشکش کی؛ سدارامیا کا الزام

کرناٹک کے وزیر اعلی سدارامیا نے ہفتہ کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر الزام لگایا کہ وہ کانگریس کے اراکین اسمبلی کو وفاداری تبدیل کرنے کے لیے 50 کروڑ روپے کی پیشکش کرکے 'آپریشن لوٹس' کے ذریعے انکی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں میں ملوث ہے۔

لوک سبھا انتخاب 2024: کرناٹک میں کانگریس کو حاصل کرنے کے لیے بہت کچھ ہے

کیا بی جے پی اس مرتبہ اپنی 2019 لوک سبھا انتخاب والی کارکردگی دہرا سکتی ہے؟ لگتا تو نہیں ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ اول، ریاست میں کانگریس کی حکومت ہے، اور دوئم بی جے پی اندرونی لڑائی سے نبرد آزما ہے۔ اس کے مقابلے میں کانگریس زیادہ متحد اور پرعزم نظر آ رہی ہے اور اسے بھروسہ ہے ...

تعلیمی میدان میں سرفہرست دکشن کنڑا اور اُڈپی ضلع کی کامیابی کا راز کیا ہے؟

ریاست میں جب پی یوسی اور ایس ایس ایل سی کے نتائج کا اعلان کیاجاتا ہے تو ساحلی اضلاع جیسےدکشن کنڑا  اور اُ ڈ پی ضلع سر فہرست ہوتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ساحلی ضلع جسے دانشوروں کا ضلع کہا جاتا ہے نے ریاست میں بہترین تعلیمی کارکردگی حاصل کی ہے۔

این ڈی اے کو نہیں ملے گی جیت، انڈیا بلاک کو واضح اکثریت حاصل ہوگی: وزیر اعلیٰ سدارمیا

کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارمیا نے ہفتہ کے روز اپنے بیان میں کہا کہ لوک سبھا انتخاب میں این ڈی اے کو اکثریت نہیں ملنے والی اور بی جے پی کا ’ابکی بار 400 پار‘ نعرہ صرف سیاسی اسٹریٹجی ہے۔ میسور میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے سدارمیا نے یہ اظہار خیال کیا۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ ...