عمان،30مارچ (ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا) اردن کی میزبانی میں گذشتہ روز ہونے والے 28 ویں عرب سربراہ اجلاس میں عرب ملکوں میں ایرانی مداخلت کی مذمت کے ساتھ ساتھ یمن، شام اور فلسطین کی تنازعات کو جلد ازجلد حل کرنے پر زور دیا گیا۔ عرب سربراہ کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابو الغیط نے عرب ملکوں میں ایرانی مداخلت کو مسترد کردیا۔ انہوں نے یمن، شام اور لیبیا میں قیام امن کے ساتھ ساتھ تنازع فلسطین کے دو ریاستی حل کی ضرورت پر زور دیا۔اس موقع پر انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ جب تک مسئلہ فلسطین حل نہیں ہوجاتا کوئی ملک اپنا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل نہ کرے۔عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ عرب سربراہ قیادت فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان تنازع کے حل کے لیے دو ریاستی حل کی بنیاد پر موثر اور نتیجہ خیز بات چیت جاری رکھنے، فریقین میں بامقصد مذاکرات کی بحالی اور دو ریاستی حل کے لیے ٹائم فریم دینے کے ساتھ ساتھ عرب ممالک کی طرف سے پیش کردہ امن روڈ میپ پرعمل درآمد کے مطالبے پر قائم ہے۔
عرب لیگ کے سربراہ احمد ابو الغیط نیاردنی وزیرخارجہ امین الصفدی کے ہمرہ بحر مردار میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں کہاکہ عرب سربراہ کانفرنس کے دوران اردنی فرمانروا شاہ عبداللہ، فلسطینی صدر محمود عباس اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی کاسہہ فریقی اجلاس بھی الگ سے ہوا ہے۔ اس اجلاس میں تینوں سربراہان نے آئندہ ماہ اپنے امریکی دوروں اور امریکی قیادت سے ہونے والی بات چیت میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ایک سوال کے جواب میں احمد ابو الغیط نے کہا کہ عرب ممالک میں ایرانی مداخلت کی بات پر عراق نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عرب ممالک اور ایران کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے چار رکنی وزارت کمیٹی ابھی بدستور قائم ہے جو اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ عرب ممالک کے اس کمیٹی کی سفارشات قابل قبول ہوسکتی ہیں۔
اس موقع پر اردنی وزیرخارجہ امین صفدی نے کہا کہ 28 واں عرب سربراہ اجلاس کامیابی سے اختتام پذیر ہوا ہے۔ اجلاس کے اہم نتائج جلد سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔ اجلاس کی کامیابی کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ تمام ممالک نے عرب خطے کے مسائل اور بحرانوں کے فوری اور موثر حل کے لیے مل کر کوششیں کرنے سے اتفاق کیا ہے۔سربراہ اجلاس کے دوران دو فریقی اور سہ فریقی اجلاسوں بارے بات کرتے ہوئے احمد ابو الغیط نے کہا کہ عرب قیادت نے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے پر زور دیا ہے۔ اس موقع پر سعودی فرمانروا شاہ سلمان کی مصری صدر السیسی سے ملاقات اور انہیں سعودی عرب دورے کی دعوت اہمیت کی حامل اور مثبت پیش رفت ہے۔
شام کے بارے میں بات کرتے ہوئے عرب لیگ کے سربراہ نے کہا کہ عرب سربراہ قیادت شام کے بحران کیسیاسی حل پر زور دیتے ہوئے خون خرابے کا فوری خاتمہ چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عرب سربراہ اجلاس کے دوران پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والے ممالک کی مدد کا بھی فیصلہ کیا گیا۔اجلاس کے اختتام پر جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا تمام عرب ممالک عراق کی وحدت کے حامی، دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے پر قائم ہیں۔ عرب ممالک نے داعش کے خلاف عراقی فوج کی کامیاب کارروائیوں کی تحسین کی ہے۔عرب سربراہ قیادت نے دہشت گردی کو شکست دینے، دہشت گردی کو فکری غذا فراہم کرنے تمام نظریاتی محاذوں کو تباہ کرنے اور عرب اقوام و دہشت گردی کے ناسور سے نجات دلانے پر متفق ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تمام عرب ممالک نے یقین دلایا ہے کہ اگر اسرائیل سنہ 1967ء کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے علاقوں سے اپنی فوجیں نکال لے تو وہ صہیونی ریاست کے ساتھ تاریخی مصالحت کے لیے تیار ہیں۔بیان میں کہا گیا ہے کہ آئندہ عرب سربراہ اجلاس سعودی عرب کی میزبانی میں ہوگا۔ قبل ازیں اردنی فرمانروا شاہ عبداللہ دوم نے بھی عرب سربراہ کانفرنس کو کامیاب قراردیا۔ انہوں نے عمان کی میزبانی میں عرب سربراہ اجلاس میں شرکت کرنے پر تمام عرب رہنماؤں اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔
اجلاس پر دیگر میڈیا کی رپورٹ: 28 ویں عرب سربراہ اجلاس کے اختتام پر پاکستان کے معروف اخبار جسارت نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اجلاس سے قبل عرب حکمرانوں نے بہت پُرجوش انداز میں گروپ فوٹو تو بنوائے، تاہم اجلاس کی کارروائی کے دوران ان میں سے بہت سے اپنی نشستوں پر اونگتے اور نیند پوری کرتے نظر آئے۔البتہ کچھ حکمرانوں نے اس موقع پر جان دار بیان بازی بھی کی۔
جسارت کے مطابق میزبان ملک اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے افتتاحی خطاب میں کہا کہ اسرائیل فلسطین تنازع کے مجوزہ دوریاستی حل کے تحت فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر مشرقِ وسطیٰ میں امن کا قیام ممکن نہیں ہے اور دو ریاستی حل ہی عرب اسرائیل جامع امن معاہدے کی بنیاد بن سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اردن کا مغربی ہمسایہ ( اسرائیل) مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری میں تیزی لا کر امن کے مواقع کو گنوا رہا ہے۔ دوسری جانب سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یمن اور شام میں جاری بحرانوں کے پُرامن اور فوری حل کی ضرورت پر زوردیا۔ انہوں نے کہا کہ یمن کا اتحاد اور استحکام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ شاہ سلمان نے اپنی تقریر میں بعض عرب ممالک میں جاری بد امنی اور جنگوں کی جانب دنیا کی توجہ دلائی۔ انہوں نے شام میں جاری بحران کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شامی عوام قتل ہورہے ہیں، اس لیے اس بحران کا فوری طور پر کوئی حل تلاش کیا جانا چاہیے۔ تاہم ان بیانات کے باوجود خطے کے عوام اور دیگر مسلمان عرب سربراہان سے مایوس ہی ہیں، کیوں کہ اس اہم اجلاس میں بھی گزشتہ اجلاسوں کی طرح عمل کی روح کہیں نظر نہیں آئی۔