سویڈن میں ہاتھ نہ ملانے والی مسلمان خاتون نے مقدمہ جیت لیا
اسٹاک ہوم ،18اگست (ایجنسی ) سویڈین میں ایک مسلمان خاتون نے ہاتھ ملانے سے انکار کرنے پر انٹریو ختم کیے جانے پر متعلقہ کمپنی کے خلاف ہرجانے کا مقدمہ جیت لیا ہے۔فرح الاجہ ایک مترجم کی نوکری کے لیے انٹرویو دینے گئی تھیں انھوں نے انٹرویو لینے والے شخص سے مذہبی وجوہات کی بنا پر ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا تھا۔انھوں نے ہاتھ ملانے کے بجائے اپنے ہاتھ کو اپنے سینے پر رکھ کر انٹرویو لینے والے کے سلام کو جواب دیا تھا۔سویڈن کی لیبر کورٹ نے متعلقہ کمپنی کو حکم دیا ہے کہ وہ فرح کو40 ہزار کرونے یا 4350 امریکی ڈالر بطور معاوضہ ادا کریں۔ عدالت نے کمپنی کے اس اقدام کو امتیازی سلوک قرار دیا ہے۔کچھ مسلمان خاندان کے قریبی افراد کے علاوہ مرد اور عورت مخالف جنس سے ہاتھ نہیں ملاتے۔تاہم یورپی ممالک میں ہاتھ ملانا ایک روایت ہے۔ اس کے علاوہ امتیازی سلوک برتنے کے خلاف موجود قوانین کمپنیوں اور عوامی اداروں کو کسی کی جنس کی بنیاد پر اس سے مختلف رویہ برتنے سے منع کرتے ہیں۔سویڈن میں محتسب کا ادارہ فرح کی جانب سے کیس لڑ رہا تھا۔ ادارے نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ ملک میں مذہبی آزادی کے تحفظ کو برقرار رکھنے کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔اپسالہ ٹاؤن میں متعلقہ کمپنی نے کہا ہے کہ اس کے سٹاف سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ مرد و خواتین سے مساوی طور پر برتاؤ کریں گے اور وہ اپنے سٹاف کے ممبران کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ جنس کی بنیاد پر کسی بھی ممبر سے ہاتھ ملانے سے انکار کریں۔لیکن محتسب کے ادارے نے فرح کا دفاع کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ فرح کسی کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھیں اس لیے انھوں نے مرد و خواتین دونوں سے ملتے وقت اپنا ہاتھ اپنے دل پر رکھا۔عدالت نے کمپنی کی جانب سے دونوں جنسوں سے برابر کا برتاؤ رکھنے کے مطالبے کو انصاف پر مبنی قرار دیا ہے لیکن کہا ہے کہ اس میں مطالبہ صرف ہاتھ ملانے کا نہیں ہونا چاہیے۔عدالت کا کہنا ہے کہ فرح نے مذہبی بنیادوں پر ایسا کیا اور یورپین کنوینشن برائے انسانی حقوق بھی اس کا حق دیتا ہے۔عدالت نے اس نکتے کو بھی مسترد کیا کہ مترجم کی حیثیت سے فرح کے ہاتھ نہ ملانے والا اقدام کمیونکیشن پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔اگرچہ فیصلہ فرح کے حق میں آیا ہے تاہم بینچ میں موجود پانچ میں سے دو ججوں نے فرح کے دعوے کے خلاف ووٹ دیا تھا۔عدالتی فیصلے کے بعد فرح نے ایس بی ٹی کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں بہت خوش ہوں۔ انصاف ملنے پر بہت اچھا محسوس کر رہی ہوں۔‘انٹرویو کے واقعے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’میں جیسے ہی لفٹ تک پہنچی میں نے رونا شروع کر دیا میرے ساتھ اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ مجھے وہ سب بالکل اچھا نہیں لگا۔‘انھوں نے کہا کہ ’میں نے یہ معاملہ ان لوگوں کی جانب سے بھی آگے لایا جو اس قسم کی صورتحال کا سامنا کرتے ہیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’پیسہ اہم نہیں تھا یہ بالکل اہمیت نہیں رکھتا اصل اہمیت یہ تھی کہ یہ حق تھا۔‘سویڈن میں اس سے قبل سنہ 2016 میں ایک سکول نے دو مسلمان لڑکوں کو سکول سے نکال دیا تھا جب انھوں نے خاتون ٹیچر سے ہاتھ ملانے سے انکار کیا تھا۔اپریل 2016 میں ایک الجزائر کی ایک خاتون کو بھی اس وجہ سے شہریت نہیں دی گئی تھی کیونکہ انھوں نے شہریت ملنے سے متعلق تقریب کے دوران ایک مرد سے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا تھا۔