سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ
اسلام آباد، 23 ؍فروری(ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا)پاکستان کی سپریم کورٹ نے پاناما دستاویزات کے بارے میں وزیراعظم نواز شریف سمیت چھ افراد کی نااہلی سے متعلق درخواستوں کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ جمعرات کو سماعت میں جواب مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا ہے تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ فیصلہ کب سنایا جائے گا۔سماعت مکمل ہونے کے بعد بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عدالت آئین اور قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے ان درخواستوں پر فیصلہ دے گی اور اس بات سے عدالت کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ملک کے کروڑوں لوگ ان کے فیصلے سے خوش ہوتے ہیں یا نہ خوش۔اُنھوں نے کہا کہ عدالت کے سامنے یہ کوئی پہلا مقدمہ نہیں ہے مستقبل میں بھی ایسے مقدمات سامنےآئیں گے اس لیے عدالت ایسا فیصلہ دینا چاہتی ہے کہ 20سال کے بعد بھی لوگ یہ کہیں کہ فیصلہ انصاف پر مبنی تھا۔
اس سے قبل حزب مخالف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے جواب الجواب میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے اپنی تقاریر میں غلط بیانی سے کام لیا ہے اس لیے عدالت اُن کی نااہلی کا ڈکلریشن دے۔ اُنھوں نے کہا کہ اس سے پہلے عدالت یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دے چکی ہے۔ان درخواستوں کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے اس پانچ رکنی بینچ میں شامل جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کے مقدمے کو ان درخواستوں کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔ اُنھوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم نے عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہیں کیا تھا اس لیے اُن کے خلاف کارروائی کی گئی۔بینچ میں موجود جسٹس عظمت سعید نے پی ٹی آئی کے وکیل سے استفسار کیا کہ جو دستاویز آپ نے جمع کروائی ہیں اور کیا اس کی تصدیق کروائی گئی ہے جس پر نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ اس کی تصدیق تو نہیں کروائی گئی لیکن مخالف فریق نے اس سے انکار نہیں کیا۔
گذشتہ سال پاناما پیپرز کے نام سے شائع ہونے والی دستاویز میں پاکستانی وزیراعظم کے اہل خانہ کا نام سامنے آتے ہی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے شریف خاندان پر بدعنوانی کا الزام لگاتے ہوئے انھیں اقتدار سے الگ کرنے کے لیے مہم کا آغاز کیا تھابنچ میں موجود جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ غیر تصدیق شدہ دستاویز کو کیسے ریکارڈ کا حصہ بنا لیں۔بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نیاپنے ریمارکس میں کہا کہ پاناما لیکس میں دی گئی دستاویزات اتنی زیادہ ہیں کہ انھیں پڑھنے اور رائے قائم کرنے میں وقت لگے گا۔عدالت کے مطابق فریقین نے 26000کے قریب دستاویزات جمع کروائی ہیں اور اگر ان کو قانون شہادت کے تحت دیکھیں تو ان میں سے 99اعشاریہ نو فیصد ردی کی ٹوکری کے لیے ہیں۔عدالت کی طرف سے مزید سوال پوچھنے کے ڈر سے نعیم بخاری نے اپنے جواب تحریری طور پر جمع کروا دیے۔
گذشتہ سال پاناما پیپرز کے نام سے شائع ہونے والی دستاویز میں پاکستانی وزیراعظم کے اہل خانہ کا نام سامنے آتے ہی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے شریف خاندان پر بدعنوانی کا الزام لگاتے ہوئے انھیں اقتدار سے الگ کرنے کے لیے مہم کا آغاز کیا تھا۔اسی سلسلے میں انہوں نے سپریم کورٹ میں وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے لیے درخواست دائر کی تھی۔ 26صفحات پر مشتمل اس درخواست میں وزیراعظم نواز شریف اور ان کے تینوں بچوں سمیت کل دس لوگوں کو مدعاعلیہان قرار دیا گیا تھا۔
پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنماؤں نے عدالتی فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف نے مصدقہ ثبوت عدالت میں پیش کیے ہیں اور انھیں یقین ہے کہ عدالت عین انصاف کے تقاضوں کے مطابق فیصلہ کرے گی۔طارق فضل چوہدری نے کہا کہ وہ ججوں کے حوصلے کو سلام پیش کرتے ہیں۔ انھوں نے سوال کیا کہ کیا کسی ملک کے سربراہ کے لیے معیار صادق اور امین کا ہی ہے کیا اس کے علاوہ کسی لیڈر کی کوئی اور ذمہ داری نہیں ہوتی؟۔انھوں نے مخالف جماعت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ جو سمجھتے ہیں کہ وہ اپنا من پسند فیصلہ کروالیں گے، انھیں ایسی توقع نہیں کرنی چاہیے۔