سپریم کورٹ کو فیصلہ کرنا ہے کہ تین طلاق غیر آئینی ہے یا نہیں:اٹارنی جنرل
نئی دہلی24مئی(ایس او نیوذ/آئی این ایس انڈیا)تین طلاق کے خلاف قانون بنانے کی طاقت پارلیمنٹ کے پاس ہے لیکن گیندابھی سپریم کورٹ کے پالے میں ہے۔اٹارنی جنرل مکل روہتگی نے کہا ہے کہ اب عدالت کو اس رسم کی آئینی قانونی حیثیت پر فیصلہ کرنا ہے۔روہتگی نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈکے حالیہ حلف نامے کو چھلاوابتایاتھا۔واضح ہوکہ یہ حلف نامہ داخل کرنے کاحکم سپریم کورٹ نے مسلم پرسنل لاء بورڈکودیاتھاکہ قاضی کوجوآپ ہدایات دیں گے،ایک حلف نامہ میں اسے داخل کریں۔چنانچہ اس نے اس کے حکم کے مطابق حلف نامہ داخل کیا۔بورڈ نے حلف نامے میں کہا تھا کہ جو لوگ تین طلاق کی پریکٹس کو عمل میں لائیں گے ان کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے گا۔روہتگی نے کہاکہ پہلے پارلیمنٹ ایسے قانون لا چکی ہے جس چھاچھوت اور ستی جیسی غیر آئینی طریقوں سے چھٹکارا مل گیا ہے۔روہتگی نے کہا کہ پارلیمنٹ کو قانون بنانے کا حق ہے اور پہلے بھی وہ ایسا کر چکی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس رسم کو غیر قانونی قراردینے کے لیے عدالت اس میں مداخلت نہیں کرے۔انہوں نے کہا کہ گیند اب عدالت کے پالے میں ہے اور اسے ہی فیصلہ کرنا ہے۔اٹارنی جنرل کا بیان اس لئے اہم ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے چھ دنوں تک سماعت کے بعد تین طلاق کے معاملے پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا ہے۔روہتگی نے کہا کہ حلف نامہ عدالت کی توجہ بٹانے کے لئے ایک مایوسی بھری کوشش ہے۔مسلم پرسنل لاء بورڈ کے حلف نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قاضیوں کومشورہ جاری کرکے بتایا جائے گا کہ دولہوں سے کہیں کہ وہ طلاق کی اس رسم کونہیں اپنائیں گے۔چیف جسٹس جگدیش سنگھ کھیہر کی صدارت والی پانچ رکنی آئینی بنچ کے سامنے اس معاملے میں سماعت کے دوران روہتگی نے کہا تھا کہ اگر تین طلاق سمیت تمام طرح کی شادی کو توڑنے کے طریقوں کو منسوخ کیا جاتا ہے تو مسلم کمیونٹی میں شادی اور شادی کو توڑنے کے معاملات کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک نیا قانون لایا جائے گا۔