دستور کو تبدیل کرنے والی بات کہنے والے آننت کمار ہیگڈے کے حلقہ میں ہی پہنچ کر گرجے فلم ایکٹر پرکاش رائے؛ کہا ہماری خاموشی ہمیں مار ڈالے گی
سرسی 14/جنوری (ایس او نیوز) مرکزی وزیر آننت کمار ہیگڈے کے ہی حلقہ میں پہنچ کر اُن کے دستور کو تبدیل کرنے والے بیان کی سخت مذمت کرتے ہوئے فلم ایکٹر پرکاش رائے نے گرج کر کہا کہ دیش کو لگی ایک بڑی بیماری کا علاج کرنا ہے تو دستور کا احترام کرنے والے سبھی لوگوں کو متحد ہوکر اس بیماری کو دور کرنا ہوگا۔ ’بھائی چارگی کو فروغ دینے کے مقصد سے منعقدہ ’ہمارا دستور ہمارا فخر ‘کے موضوع پر سرسی کے راگھویندرا مٹھ میں سنیچر صبح کو منعقدہ ریاستی اجلاس کا افتتاح کرنے کے بعد معروف دانشور اور فلم اداکار پرکاش رائے خطاب کررہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت دیش کو ایک بہت بڑی بیماری لگ گئی ہے۔ اور جس کسی کو بھی اس ملک کے دستور پر فخر ہے ، اسے چاہیے کہ اس مرض کو ختم کرنے کی جدوجہد کرے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے تاریخ پر بات کرنے کے لئے وقت نہیں ہے ،لیکن مستقبل کے بارے میں گفتگو کرنے اور سوچنے کے بھر پور مواقع موجود ہیں۔ اس لئے ہمیں مستقبل کے بارے میں جرأت مندی کے ساتھ بات کرنی چاہیے۔ورنہ ہماری خاموشی ہمیں مار ڈالے گی۔
پرکاش رائے کے مطابق’’ زعفرانی بریگیڈ کا رنگ اب پوری طرح کھل کر سامنے آگیا ہے۔ یہ لوگ جو لاشوں پر سیاست کررہے ہیں وہ میرے دیش کے اصلی ہندو نہیں ہیں۔ان کا رنگ بھی زعفرانی نہیں ، بلکہ وہ کوئی اور ہی رنگ ہے۔
آننت کمار ہیگڈے کے حالیہ بیانات کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے پرکاش رائے نے کہا کہ ضلع کے ایم پی اننت کمار ہیگڈے کرکٹ کھیلنے کے لئے میدان میں اُتر تے ہیں اور فٹ بال کھیل کھیلتے ہیں، ایسا کرنے کی صورت میں گیند اُن کے چہرے کو بگاڑنا طئے ہے ۔ پرکاش رائے نے کہا کہ آننت کمار ہیگڈےجو من میں آیا بول دیتے ہیں ۔ انہیں ملک کے دستور کا کوئی علم نہیں ہے اور وہ اس طرح کی بیان بازی سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ عوام کی معصومیت اور خاموشی کا فائدہ اٹھا کرسیاسی پارٹیاں الیکشن ختم ہونے تک امن اور بھائی چارگی کے ماحول کو بگاڑنے کی کوشش میں لگ گئی ہیں۔عوام کو چاہیے کہ ایسی پارٹیوں کی کھل کر مخالفت کریں۔ہمیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اس طرح کی سیاست سے صرف دکھ نہیں ہوتا بلکہ ہمیں غصہ بھی آتا ہے۔پرکاش نے پوچھا کہ اس سرزمین پر ایک طبقے کا جینا حرام کرنے والے کیا ہندو ہوسکتے ہیں؟احتجاجی مظاہرے کرکے ٹائروں کو آگ لگادینا کیا ہندو توا ہو سکتاہے؟
پرکاش رائے کا کہنا تھا کہ زعفرانی رنگ دیکھ کر سوامی ویویکا نند کی یاد آتی ہے۔ لیکن آج کل کچھ بددماغ لوگ زعفرانی رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں اور ایسے ہی لوگوں سے سیاست مذہبی منافرت میں بدل جاتی ہے۔جو اصلی ہندو ہیں وہ کبھی بھی فرقہ وارانہ بھائی چارگی کو برباد کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔
پرکاش رائے نے خطاب کے ا بتدا میں کہا کہ جیسے ہی وہ پروگرام میں شریک ہونے کے لئے پہنچے، مقامی پولس نے اُنہیں مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ میں یہاں اشتعال انگیز خطاب نہ کروں۔ پرکاش رائے نے کہا کہ میں اشتعال انگیز تقریر کرنے والوں میں سے نہیں ہوں، ایسی تقریر کرنے والے اسی مقام (سرسی) میں موجود ہیں۔
سیمینار سے قبل ایک ریلی نکالی گئی تھی۔گجرات سے تشریف فرما حقوق انسانی کے کارکن میک وان مارٹن نےسرسی اولڈ بس اسٹائنڈ کے بالمقابل بڈکی بیل میں مہاتما گاندھی کے مجسمے کو پھولوں کی مالا پہنانے کے بعد ریلی کو ہری جھنڈی دکھائی تھی، ریلی مختلف راستوں سے ہوکر سرسی کے رگھویندرا مٹھ پہنچی تھی
پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے میک وان مارٹن نے سپریم کورٹ کے چار ججوں کے میڈیا کے سامنے پہنچ کر دستور کو بچانے کی بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی آزادی کے 70 سال بعد اب ملک کی جمہوریت خطرہ میں ہے، ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ججوں کو میڈیا کے سامنے آکر عدلیہ میں ہورہی من مانی کا انکشاف کرنا پڑا ہے،ا س سے ملک کے عدلیہ پر منڈلانے والے خطرات کو دیکھا جاسکتا ہے۔
اس موقع پرمفکر اور مصنف رحمت تریکیرے نے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مختلف فرقوں کے درمیان آپسی تصادم بڑھتا جا رہا ہے اور انسانیت کا جذبہ گھٹتا جارہا ہے۔اقتدار پر آنے کے لئے انسانی رشتوں میں آگ لگانے کا کام ہورہا ہے۔عقل اور ہوش رکھنے والے ہر انسان کو اس پر توجہ دینا ضروری ہے۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے ہی بیان دیا ہے کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔جب ایسے لوگ سامنے ہوں جن کا یہ نظریہ ہوکہ اگر ایک لاش گرتی ہے تو ہم جیت سکتے ہیں، تو ایسی صورت میں جمہوریت کے بارے میں بات کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔
سمینار میں کئی دیگر دانشور حضرات، سماجی کارکن اور سنئیر صحافیوں نے بھی خطاب کرتے ہوئے ملک کے دستور کو بچانے اور ملک میں بھائی چارگی کا عام کرنے کے تعلق سے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
پورا پروگرام ساحل آن لائن پر لائیو ٹیلی کاسٹ کیا گیا تھا، جس کی ریکارڈنگ ذیل میں دی جارہی ہے: