جاسوسی اپنے ملک کے لئے؟ .... از : ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

Source: Gawah Hyderabab | By I.G. Bhatkali | Published on 16th April 2017, 1:18 PM | مہمان اداریہ |

پاکستان کی فوجی عدالت نے ہندوستان کے سابق نیوی کمانڈر کلبھوشن سدھیر یادو کو سزائے موت سنائی ہے۔ جس پر ہندوستان کا شدید ردعمل فطری ہے۔ خود پاکستانی میڈیا نے فوجی عدالت کے اس فیصلے کو بعید از قیاس اور ہند۔پاک کشیدگی میں مزید اضافے کا سبب قرار دیا۔ کلبھوشن کی سزا پر عمل آوری کب ہوگی ابھی اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے البتہ اس بات کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ اس فیصلے پر نظرثانی ہوسکتی ہے۔ پھر بھی یہ اندیشہ برقرار رہے گا کہ جس طرح سربجیت سنگھ کو معافی کے لئے بین الاقوامی سطح پر چلائی گئی تحریک کے باوجود پاکستان میں اسے سزائے موت دے دی گئی تھی۔

کلبھوشن کا تعلق ممبئی سے ہے۔ 1987ء میں نیشنل ڈیفنس اکیڈیمی سے وابستہ ہوئے اور 1991ء میں انڈین نیوی میں ان کا کمیشن ہوا تھا۔ اطلاعات کے مطابق کلبھوشن نے ہندوستانی انٹلی جنس ایجنسی RAW کے لئے کام کرنا شروع کیا تھا۔ وہ 2003ء میں انہوں نے ایران کے ’’چاہ بہار‘‘ میں چھوٹا سا کاروبار شروع کیا اور کسی طرح ایران۔پاکستان سرحد پار کرکے بلوچستان کے علاقہ میں پہنچ گئے جہاں انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ ان سے اقبال جرم کروایا گیا جس کی ویڈیو فلم کو منظر عام پر لایا گیا۔ آیا کلبھوشن نے جو اقبال جرم کیا وہ جبری تھا یا واقعی انہوں نے اعتراف کیا یا پھر ان کی آواز کی ڈبنگ کی گئی‘ اس بارے میں کوئی صورتحال واضح نہیں ہے۔ البتہ پاکستان نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ کلبھوشن نے حسین مبارک پٹیل کے نام سے علیحدگی پسندوں کی مدد، بلوچستان میں مسلکی جھگڑوں اور کراچی کے ماحول کو بے چین کرنے میں بڑا اہم رول ادا کیا۔ ان پر پاکستان نے نظر رکھی تھی اور ان کے فون کالس ٹیپ کئے جارہے تھے۔ وہ جب بھی ہندوستان میں اپنے ارکان خاندان سے بات کرتے‘ اپنی مرہٹی زبان میں بات کیا کرتے تھے‘ جس کی بناء پر انہیں گرفتار کیا گیا۔ اب اس بات کا پتہ چلایا جارہا ہے کہ آیا انہوں نے ایران۔پاک سرحد غیر قانونی طریقہ سے پار کی ہے؟ جو بھی ہو الزامات سنگین ہیں۔ ہندوستان میں کئی بار پاکستانی شہریوں کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تاہم کسی کو بھی سزائے موت نہیں دی گئی۔ راجیہ سبھا میں دےئے گئے ایک بیان کے مطابق 2013ء اور 2016ء کے درمیان 46پاکستانی شہریوں کو ہندوستان میں جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔

اس کے برعکس پاکستان نے 1999ء میں ایک ہندوستانی شہری شیخ شمیم کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا اور انہیں موت کی سزا دی۔ سربجیت سنگھ کو 16سال تک جیل میں سڑانے کے بعد 2013ء میں پھانسی دی گئی جس کے خلاف جموں جیل میں قیدیوں نے پاکستانی قیدی کا قتل کردیا تھا۔ پاکستان نے کشمیر سنگھ کو 2008ء میں معاف کردیا تھا یہ اور بات ہے کہ کشمیر سنگھ نے جاسوسی کے الزام میں 35سال پاکستانی جیل میں گذار دےئے۔ 2001ء میں رویندر کوشی نامی ایک ہندوستانی شہری جو جاسوسی کے الزام میں پاکستانی جیل میں تھا ٹی بی کا مریض ہوکر موت کی آغوش میں چلا گیا۔ اب بھی بعض ہندوستانی شہری پاکستانی جیلوں میں قید ہیں‘ جن کی رہائی کیلئے سفارتی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہمیشہ کشیدگی کی ایک وجہ جاسوسی بھی رہی ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے سفارتی عہدیداروں پر جاسوسی اور ایک دوسرے کے ملک میں انتشار پیدا کرنے کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔ نومبر 2016ء پاکستانی ہائی کمشنر کے چار عہدیداروں کو جاسوسی اور ہندوستانی سرزمین پر ناپسندیدہ سرگرمیوں کی پاداش پر گرفتار کیا گیا تھا۔ اسلام آباد میں بھی جوابی کاروائی میں ہندوستانی سفارتکاروں کو گرفتار کیا تھا۔

ہندوستان، پاکستان ہو یا کوئی اور ملک ایک دوسرے کے خلاف جاسوسی عام بات ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب سے دنیا وجود میں آئی حضرت انسان پیدا ہوئے تب سے ہی یہ سلسلہ شروع ہوا۔ ہندوستان کی قدیم ترین تاریخ میں چانکیہ اور چندرگپت موریا کے ہاتھوں جاسوسوں کے قتل کا ذکر ملتا ہے۔ قدیم مصر میں ابتداء ہی سے جاسوسی کے نت نئے طریقے اختیار کئے گئے۔ حکومت کے جاسوس چاروں طرف پھیلے ہوتے جو پل پل کی خبر لاتے اور اُسی کی بنیاد پر کچھ لوگ قتل کئے جاتے‘ کچھ سنگسار اور کسی کے ہاتھ پیر کاٹ دےئے جاتے۔ یونان اور روم کے سلطنتوں کا انحصار جاسوسی پر ہوا کرتا تھا جو ارباب اقتدار کے خلاف شورش، بے چینی، بغاوت سے باخبر کرتے۔ جاسوسوں کی مدد سے ہی منگولوں نے ایشیاء اور یورپ پر یلغار کی۔ 1845 اور 1847ء کے درمیان ایویڈنس بیورو پہلی باقاعدہ ملٹری انٹلیجنس کو تشکیل دی گئی جو اس وقت کی آسٹریائی حکومت کا کارنامہ تھا۔ 1882ء میں برطانیہ نے سمندری جاسوسی کی بنیاد رکھی۔ 1909ء میں برٹش سکریٹ بیورو پہلا بین محکمہ جاتی انٹلیجنس ادارہ تھا۔ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے دوران جاسوسی کی نئی ٹیکنکل تیار کی گئی۔ 1916ء میں وائٹ لیڈی نیٹ ورک (DAME BLANCHE) تشکیل دیا گیا۔ صنف نازک اور ان کے شباب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ خوبصورت دوشیزاؤں کے جال میں بڑی آسانی سے فوجی عہدیدار پھنس جاتے اور یہ اپنی دلفریب اداؤں سے ان کے راز اُگلوالیتے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ حال ہی میں نارتھ کوریا کے حاکم کم جونگ کے بھائی کو ایرپورٹ کے وی آئی پی لاج میں دو عورتوں نے زہر دے کر ہلاک کیا تھا۔ جاسوس عورتوں کا جال بہت وسیع، مضبوط اور کامیاب ثابت ہوتا رہا ہے جنہیں استعمال کرکے کبھی دشمن یا پڑوسی ملک تو کبھی اپوزیشن تو کبھی صحافی حکومتوں کے تختے الٹنے میں کامیاب رہے۔ امریکی صدر رچرڈ نکسن کا واٹرگیٹ اسکینڈل دو صحافیوں کی جاسوسی کا نتیجہ تھا جس کے نتیجہ میں نکسن کو صدارت سے سبکدوش ہونا پڑا۔ اُسی طرح بل کلنٹن کے دور میں مونیکا لیونسکی کا سیکس اسکینڈل بھی اِسی سلسلہ کی ایک کڑی تھی۔ لارینس نامی جاسوس نے کس طرح سے عالم عرب کا تختہ الٹا‘ یہ فلم لارینس آف عربیہ میں دکھایا گیا ہے۔ بہرحال! دو ممالک آپ میں دشمن نہ بھی ہوں تب بھی ایک دوسرے کے خلاف جاسوسی سرگرمیوں میں مشغول رہتے ہیں۔ جب بھی موقع ملتا ہے ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے قدرتی وسائل سے واقفیت اہم فوجی تنصیبات سے متعلق ڈاٹا کا حصول‘ جتنا اہم ہوتا ہے اُتنا ہی ایک دوسرے کے ممالک میں عوام میں بے چینی پیدا کرکے اُن ممالک کے وسائل کو محدود اور محصور کردیا جاتا ہے تاکہ یہ ملک اندر سے کھوکھلے ہوجائیں اور اپنی طاقت اور وسعت میں اضافہ کی کوشش نہ کرے۔

اس وقت دنیا کی دس سرکردہ انٹلیجنس ایجنسیاں اپنے اپنے ملک کے مفاد کے لئے دوسرے ممالک میں سرگرم عمل ہیں جن میں پاکستان کی انٹرسرویس انٹلیجنس (آئی ایس آئی) سی آئی اے (امریکہ)، M-16 برطانیہ، FSB روس، BND جرمنی، RAW ہندوستان، DGSE فرانس، ASIS آسٹریلیا، MSS چین اور MOSSAD اسرائیل قابل ذکر ہیں۔

یہ ایجنسیاں جاسوسی کے لئے ہر ایک طریقہ اختیار کرتے ہیں چاہے وہ جاسوس سٹیلائٹ ہو یا لیڈی ایجنٹس ہوں۔حالیہ عرصے کے دوران میڈیا نے بھی جاسوس کے طور پر اپنا رول ادا کیا۔ چاہے وہ مقامی، قومی یا بین الاقوامی سطح پر کیوں نہ ہو۔ اسٹنگ آپریشن اس کی سب سے معمولی مثال ہے۔ سی این این‘ فاکس اور دوسرے بڑے اہم انٹرنیشنل میڈیا ادارے اپنے نمائندوں کو اپنے اپنے ملک کے جاسوس کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ خلیجی جنگ میں سی این این کا ہر رپورٹر، ہر کیمرہ مین امریکہ اور اتحادی فوجوں کا جاسوس تھا۔ چوں کہ میڈیا نمائندوں پر شک نہیں کیا جاتا اس لئے ان کے بھیس میں آسانی سے جاسوسی کی جاسکتی تھی اور راز ااگلوائے جاسکتے ہیں۔ 

جہاں تک ہندوستان اور پاکستان کا تعلق ہے کلبھوشن کے ساتھ کیا ہوگا آنے والا وقت بتائے گا۔ تاہم پاکستانی میڈیا نے بجاطور پر یہ بات کہی ہے کہ اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہاہے کہ ایک ایسے وقت جبکہ ہندوپاک کے درمیان تعلقات کچھ بہتر نہیں ہیں‘ کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ کلبھوشن کو سزائے موت کا فیصلہ باہمی تعلقات کو مزید کمزور کرسکتا ہے۔ ہر ملک میں پڑوسی یا دشمن ملک کے جاسوسوں کے لئے اس ملک کے قوانین کے مطابق سزائیں مقررہیں۔ کبھی کبھار ان سزاؤں میں ترمیم اور تخفیف بھی ہوتی ہے‘ کبھی معافی دے کر انہیں اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کبھی ایک ملک کا ایجنٹ گرفتار ہونے کے بعد ڈبل ایجنٹ کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔ عام طور پر ہر ایک ملک کے اعلیٰ حکام بالخصوص فوج اور خارجی محکمے کے اعلیٰ افسران پر الزام ہے کہ وہ اپنے مفاد کے لئے ایجنٹس مقرر تو کرتے ہیں اور جب بدقسمتی سے یہ ایجنٹس گرفتار ہوجاتے ہیں تو ان سے لاتعلقی اختیار کرلی جاتی ہے۔ کلبھوشن کے ساتھ بھی شاید ایسا ہی ہوا تھا۔ کوئی جاسوس اپنے ملک کے لئے اپنی جان کو جوکھم میں ڈالتا ہے اور گرفتار کو اپنی زندگی کے کئی برس جیل میں گذار دیتا ہے اور پھر موت کو گلے لگالیتا ہے‘ تو ایسے جاسوس بھی اپنے وطن کے جانثار ہوتے ہیں۔ جنہیں پوری قوم کا بھرپور ساتھ ملنا چاہئے۔ ورنہ مستقبل میں اپنے ملک کے لئے مرمٹنے کا جذبہ بتدریج کم ہوتا جائے گا۔

(مضمون نگار ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز‘ حیدر آباد سے شائع ہونے والے اُردو ہفت روز  گواہ کے ایڈیٹر ہیں۔)

ایک نظر اس پر بھی

کارپوریٹ گھرانوں اور ہندوتوا کا ’سازشی گٹھ جوڑ‘، مودی حکومت میں ’کھیل‘ کے سبھی اصول منہدم!

فاشسٹ عناصر ہمارے جدید سماج میں رہتے ہیں، لیکن عموماً وہ بہت ہی چھوٹے طبقہ کے طور پر حاشیے پر پڑے رہتے ہیں۔ وہ مین اسٹریم میں تبھی آ پاتے ہیں جب انھیں اجارہ داری والی پونجی کی مدد ملے کیونکہ اسی سے ان عناصر کو اچھا خاصہ پیسہ اور میڈیا کوریج مل پاتا ہے۔ یہ مدد کب ملتی ہے؟ تب، جب ...

مسلم تھنک ٹینک: قوم مسلم کی ایک اہم ترین ضرورت ۔۔۔ از: سیف الرحمن

آج جب کہ پوری دنیا و اقوام عالم ترقی کے منازل طے کر رہی ہیں اور پوری دنیا میں آگے بڑھنے کی مقابلہ آرائی جاری ہے جِس میں ہمارا مُلک ہندوستان بھی شامل ہے ، تو وہیں ملک کر اندر بھی موجود الگ الگ طبقات میں یہ دوڑ دیکھنے کو مل رہی ہے

عالمی کپ فٹبال میں ارجنٹینا کی شاندار جیت پر ہندی روزنامہ ہندوستان کا اداریہ

کھیلوں کے ایک سب سے مہنگے مقابلے کا اختتام ارجینٹینا  کی جیت کے ساتھ ہونا بہت خوش آئندہ اور باعث تحریک ہے۔ عام طور پر فٹبال کے میدان میں یوروپی ملکوں کا دبدبہ دیکھا گیا ہے لیکن بیس برس بعد ایک جنوبی امریکی ملک کی جیت حقیقت میں فٹبال کی جیت ہے۔

ہر معاملے میں دوہرا معیار ملک کے لیے خطرناک ۔۔۔۔ منصف (حیدرآباد) کا اداریہ

سپریم کورٹ کے حالیہ متنازعہ فیصلے کے بعد انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ای ڈی) کی سرگرمیوں میں مزید شدت پیدا ہوگئی ۔ مرکزی ایجنسی نے منی لانڈرنگ کیس میں ینگ انڈیا کے  دفاتر کو مہر بند کردیا۔  دہلی  پولیس نے کانگریس کے ہیڈ کوارٹرس کو عملاً  پولیس چھاؤنی میں تبدیل کر دیا۔ راہول اور ...

نوپور تنازع: آخر مسلمان جوابی غلطیاں کیوں کر رہے ہیں؟۔۔۔۔تحریر:قمر وحید نقوی

دو ہفتے بعد نوپور شرما کے تبصرے کے تنازع پر ہندوستانی مسلمانوں کے ایک طبقے نے جس غصے کا اظہار کیا ہے وہ بالکل مضحکہ خیز اور سیاسی حماقت کا ثبوت ہے۔ اتنے دنوں بعد ان کا غصہ کیوں بھڑکا؟ کیا ان کے پاس اس سوال کا کوئی منطقی جواب ہے؟

تقسیم کی  کوششوں کو روکنے کے ساتھ ساتھ ہم آہنگی و خیرسگالی پر زوردینا ضروری : ملک کے موجودہ حالات پر کنڑا روزنامہ ’پرجاوانی ‘ کا اداریہ

ملک کے مختلف مقامات پر عبادت گاہوں کے متعلق جو  تنازعات پیدا کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں و ہ دراصل سماجی اور سیاسی تقسیم کا مقصد رکھتی ہیں۔ ایسی کوششوں کے پیچھے معاشرے میں ہنگامہ خیزی پیدا کرنے کامقصدکارفرما ہےتو ملک کے سکیولرنظام کو کمزور کرنے کا مقصد بھی اس میں شامل ہے۔