گمنامی کی زندگی گزار رہا ہے بھٹکل میں اردو ادب و شاعری کو رواج دینے والا اپنے زمانے کا مایہ نازادیب و شاعر ڈاکٹر محمد حسین فطرت
فطرت بھٹکلی بھٹکل میں اردو ادب کی روشنی عام کرنے والا اردو کاایک مایہ ناز شاعر ہے،لیکن اپنی زندگی کے پچاسی سال ادب و شاعری کی خدمت میں گزارنے والا یہ شاعر آج دنیا سے دور گمنامی کی زندگی گزار رہا ہے ۔
فطرت بھٹکلی کا شمار بھٹکل کے ان شعرا میں ہوتا ہے جن کی شاعرانہ عظمت کی ایک دنیا معترف ہے ،اس وقت بھٹکل اور آسپاس میں اردو ادب اورشاعری کی جو روشنی عام ہے اس میں فطرت بھٹکلی نے اپنا خون جگر دے کر بھٹکل کی ادبی تاریخ میں اپنا نام نہایت جلی حرفوں میں ثبت کیا ہے۔ ماضی میں فطرت بھٹکلی کو کرناٹکا راجیہ اتسو کے موقع پر سرکاری اعزاز سمیت اردو کی کئی ادبی تنظیموں نے ایوارڈ سے نوازا ہے ،عرصہ دارز تک کرناٹک کی سرکاری نصابی کتابوں میں فطرت بھٹکلی کا کلام پڑھ کر طلبہ نے اردو کی ادبی و فنی خوبصورتی سے آگاہی حاصل کی ہے۔ فطرت بھٹکلی کے سات مجموعہ کلام چھپ کر ادبی و علمی حلقوں سے داد وتحسین حاصل کر چکے ہیں۔ فطرت کا شمار اپنے دور کے تعمیر پسند حلقے کے ادیبوں اور شاعروں میں ہوتا ہے ، اپنی پیرانہ سالی کے باوجودد بھی انہوں نےمیڈیا کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے مقصدی ادب پر اپنے خیالات کا اظہار کیا، اور موجودہ دور میں مشاعروں کے گرتے ہوئے معیار پر سخت تشویش کا اظہار کیا
فطرت حسین بھٹکلی سے کسب فیض کرنے والے نہ صرف بھٹکل میں بلکہ آس پاس کے علاقوں میں بھی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں ، جن کا ماننا ہے کہ فطرت کی شاعری میں جمالیاتی رنگ پوری آب و تاب کے ساتھ نمایاں ہے
فطرت نےجگرمرآدابادی کے قریبی شاگر ابوبکر مصور سے کسب فیض کیا۔ فطرت کے کلام پر مختلف لوگوں نے تحقیقی مقالےبھی لکھے، فطرت نے اپنی جوانی میں اردو سہ ماہی رسالہ ’’نفیر فطرت‘‘ جاری کیا جو کہ ان کی صحت کے ساگار رہنے تک جاری رہا۔ پیشہ سے داکٹر ہونے کے باوجود ان کا زیادہ تر وقت شعر و ادب کے گیسو سنوارنے میں صرف ہوا،ان کے خستہ حال مکان میں آج ان کے کتابوں کے ذخیرہ پر دھول اڑ رہی ہے اور اپنے زمانے کا مایہ ناز شاعر چراغ سحری کی طرح اپنی زندگی کے باقی ایام گزار رہا ہے،کسی زمانے میں ادبی دنیا کی آب و تاب کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے والی یہ بوڑھی آنکھیں آج اپنے کسی قدران کو دیکھنے لئے ترس رہی ہیں،فطرت بھٹکلی کو اس بات کا شدید احساس ہے کہ اردو سے دورایک سنگلاخ زمین میں اردو کی خدمت کے باوجود ادبی دنیا نے خاطرخواہ ان کی قدر نہیں کی ہے