عدالت نے فوج افسران کے خلاف تادیبی کارروائی پر لگائی روک
نئی دہلی12 فروری(ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا ) سپریم کورٹ نے آج جموں کشمیر پولیس کو میجر آدتیہ کمار سمیت فوج کے افسران کے خلاف کوئی ’’ تادیبی اقدامات‘‘ اٹھانے سے روک دیاہے ۔ میجر آدتیہ کمار کو شوپیاں فائرنگ معاملے میں ملزم قرار دیا گیا ہے جس میں تین شہری جاں بحق ہو گئے تھے۔ چیف جسٹس دیپک مشرا اور جسٹس اے ایم کھانولکر اور جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کے بنچ نے لیفٹیننٹ کرنل کرم ویر سنگھ کے وکیل سے ان کے پٹیشن کی کاپیاں اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال اور جموں کشمیر حکومت کے دفاتر کو بھی بھیجنے کے لئے کہا ہے ۔ لیفٹیننٹ کرنل کرم ویر سنگھ میجر آدتیہ کمار کے والد ہیں ، آدتیہ کمار 10 گڑھوال را ئفلس میں میجر ہیں۔ اس کیس میں وینو گوپال کی مدد مانگنے کے علاوہ بنچ نے ریاستی حکومت کو درخواست پر دو ہفتے کے اندر جواب دینے کی ہدایت بھی دی ہے ۔ ایک عبوری اقدام کے طور پر عدالت نے ریاستی حکومت کو فوجی افسران کے خلاف کوئی تادیبی اقدامات نہ اٹھانے کا حکم دیاہے۔ عدلیہ نو فروری کو کرم ویر سنگھ کی عرضی پر سماعت کے لیے راضی ہوگئی تھی ،وکرم سنگھ نے اپنے بیٹے کے خلاف درج ایف آئی آر منسوخ کرنے کی درخواست کی ہے۔کرم ویر سنگھ نے کہا کہ ان کے بیٹے کانام ایف آئی آر میں غلط طریقے سے ڈالا گیا ہے ان کی دلیل ہے کہ یہ واقعہ فوج کے ایک قافلے سے منسلک ہے جو مسلح افواج کے خصوصی حقوق ایکٹ کے تحت آنے والے علاقے میں فوج کی ڈیوٹی پر تھا، سنگ باری کر رہی بھیڑ نے فوج کی گاڑی کو الگ تھلگ اور نقصان پہنچادیا تھا ۔ شوپیاں کے گنووپورہ گاؤں میں پتھراؤ کر رہی بھیڑ پر فوجی اہلکاروں کی فائرنگ میں تین شہری جاں بحق ہوگئے تھے ۔ وزیر اعلیٰ نے واقعہ کی تحقیقات کا حکم دے دیا تھا۔ میجر کمار سمیت 10 گڑھوال را ئفلس کے اہلکاروں کے خلاف رنبیر پینل کوڈ کی دفعہ 302 (قتل) اور 307 (اقدام قتل ) کے تحت ایف آئی آر درج کیا گیا تھا۔ درخواست گزار نے فوجیوں کے حقوق کی حفاظت اور کافی معاوضہ کے لئے ہدایات کا حکم دینے کی درخواست کی ہے تاکہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران کی گئی کارروائی کے لئے مجرمانہ مقدمات چلا کر کسی بھی فوجی اہلکار کو پریشان نہیں کیا جائے۔ عرضی میں ان لوگوں کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کرنے کی مانگ کی گئی ہے جو دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث تھے اور جن کی سرگرمیوں کی وجہ سے حکومتی املاک کو نقصان پہنچاہے ۔کرم ویر سنگھ نے عرضی میں یہ بھی کہا ہے کہ ان کے بیٹے کا ارادہ فوجی اہلکاروں اور سرکاری املاک کو بچانے کا تھا، تاہم یہ سوال ہے کہ اگر وہ حکومتی املاک کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے تو پھر فائرنگ براہ راست شہریوں کے سینے اور کندھوں پر کیوں کر پیوست ہوئی ؟ عرضی گذرا نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ لوگوں نے ایک جونیئر کمیشنڈ افسر کو پکڑ لیا تھا، وہ لوگ ان کاپیٹ پیٹ کر قتل ہی والے تھے کہ بھیڑ کو منتشر کرنے اور عوامی جائیداد کی حفاظت کے لئے تنبیہ کے لیے گولیاں چلائی، مگر افسوس کی بات یہ رہی ہے کہ وہ گولیاں شہریوں کے سینے میں کیوں کر پیوست ہوئیں ، تاہم عدلیہ نے فوجیوں کے خلاف تادیبی کاروائی پر روک لگادی ہے ۔