’’جاسٹا‘‘کا جواب دینے کے لیے سعودی عرب بھرپور وسائل کا حامل
ریاض،29ستمبر(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا) سعودی عرب اور اس کے حلیف ممالک میں سرکاری اور غیر سرکاری حلقے اس امر سے خبردار کر رہے ہیں کہ امریکی قانون ’’جاسٹا‘‘جو گیارہ ستمبر 2001کے حملوں کے متاثرین کے اہل خانہ کو سعودی عرب کے خلاف قانونی کارروائی کا حق دیتا ہے ، اس کے انتہائی منفی نتائج ہوں گے۔درحقیقت مملکت اپنے ردعمل کے لیے وسائل کا ایک بھرپور مخزن رکھتی ہے۔ اس میں سرکاری رابطے منجمد کرنا ، امریکی معیشت سے اربوں ڈالر کا نکال لینا ، خلیج تعاون کونسل میں اپنے برادر ملکوں کو اپنی پالیسی کی پیروی پر قائل کرنا شامل ہیں۔ اسی ضمن میں انسداد دہشت گردی، اقتصادی تعاون اور سرمایہ کاری کے علاوہ امریکی مسلح افواج کو عسکری علاقے کے اڈے استعمال کرنے کی اجازت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
الامارات یونی ورسٹی کے پروفیسر اور سیاسی تجزیہ کار عبدالخالق عبداللہ کا کہنا ہے کہ امریکا اور باقی دنیا کے سامنے یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ اگر خلیج تعاون کونسل کی کسی ریاست کو غیر منصفانہ طریقے سے نشانہ بنایا گیا تو کونسل کے بقیہ ارکان اس کو سپورٹ کریں گے۔مملکت سعودی عرب علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اس نوعیت کے مواقف کے ساتھ نمٹنے کا تجربہ رکھتی ہے۔ گزشتہ برس سویڈن کی وزارت خارجہ کی جانب سے مملکت کو نشانہ بنایا گیا۔ تاہم جواب میں اس کے خلاف خلیج تعاون کونسل کے ممالک اور ان کے حلیفوں کی جانب سے اقتصادی پابندیوں کے موقف کا سن کر اسٹاک ہوم اپنے مواقف سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگیا۔امریکا کے سابق معاون برائے وزیر دفاع شاس فریمین جو ریاض میں امریکی سفیر بھی رہ چکے ہیں ، ان کے نزدیک سعودی عرب اس قانون کا جواب ایسے انداز سے دے سکتا ہے جس سے امریکا کے تزویراتی مفادات خطرے میں پڑ سکتے ہیں.. مثلا یورپی اور ایشیائی فضاؤں میں اڑان اور خطے میں فوجی اڈوں کے استعمال کی اجازت جو افغانستان ، عراق اور شام میں امریکی فوج کی کارروائیوں کے لیے ضروری ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس قانون کے نتیجے امریکا اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات اور بالخصوص انسداد دہشت گردی سے متعلق خصوصی تعاون کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ادھر پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکانومیز کے محقق جوزف گینن نے امریکا میں سعودی عرب کے سرکاری اثاثوں کے حجم کا اندازہ 500سے 1000ارب ڈالر کے درمیان لگایا ہے۔دوسری جانب امریکی ۔عرب چیمبر آف کامرس کے سربراہ ڈیوڈ ہیمون نے خبردار کیا ہے کہ سعودی عرب یورپ اور ایشیا سے شراکت دار چننے میں آزاد ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ امریکا اب میدان کا اکیلا کھلاڑی نہیں رہا اور سعودی عرب جس انداز سے جواب دے گا اس کا کوئی بھی اندازہ نہیں کرسکتا ہے۔براؤن یونی ورسٹی کے محقق اسٹیفن کنزر نے خبردار کیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اس قانون کا رد عمل براہ راست سعودی عرب کی جانب سے نہیں بلکہ مملکت کے ساتھ مربوط ممالک کی جانب سے آئے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور امریکا کے درمیان آٹھ دہائیوں پر مشتمل تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہونے کے درپے ہیں۔