روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے مرکزی حکومت کا سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل؛ روہنگیا مہاجرین کو قومی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا گیا
نئی دہلی،18/ستمبر(آئی این ایس انڈیا/ایس او نیوز)مرکز نے روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے آج سپریم کورٹ میں اپنا حلف نامہ داخل کیا ہے۔ اس معاملہ پر اب 3اکتوبر کو سماعت ہوگی۔ مرکز نے کہا ہے کہ کورٹ کو اس مسئلے کو حکومت پر چھوڑ دینا چاہئے اور ملک کے مفاد میں حکومت کو پالیسی ساز فیصلے لینے دیا جانا چاہئے، اور انہیں ملک بدر کرنے کا فیصلہ حکومت کے اوپر چھوڑ دیا جانا چاہیے۔ عدالت کو اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ درخواست میں جو معاملہ دیا گیا ہے، وہ ہندوستانی شہریوں کے بنیادی حقوق کو متاثر کرے گا،یہ قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ حکومت نے کہا کہ کچھ روہنگیا مہاجرین غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں، جیسے ہنڈی، حوالہ چینل کے ذریعہ پیسہ کالین دین، جعلی ہندوستانی شناختی دستاویزات اور انسانی اسمگلنگ وغیرہ۔ حکومت نے کہا کہ روہنگیا بہت سے ملک میں غیر قانونی نیٹ ورک کے ذریعے داخل ہوتے ہیں اور پین کارڈ اور ووٹر کارڈ حاصل کرتے ہیں۔حکومت نے یہ حلف نامہ روہنگیا پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کے اپنے فیصلے کے دفاع میں دیا ہے۔
میانمار میں روہنگیا باشندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران حکومت نے چند ہفتے قبل اعلان کیا تھا کہ وہ ملک میں مقیم روہنگیا پناہ گزینوں کو ملک بدر کر رہی ہے لیکن حکومت کے اس فیصلے کو دو پناہ گزینوں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔حلف نامے میں کہا گیا کہ مرکزی حکومت نے یہ بھی پایا ہے کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور دہشت گرد تنظیم ISIS اور دیگر دہشت گرد گروپ بہت سے روہنگیا مہاجرین کو ہندوستان کے حساس علاقوں میں فرقہ وارانہ تشدد پھیلانے کی سازش میں شامل کئے ہوئے ہے۔ جموں، دہلی، حیدرآباد اور میوات میں کچھ دہشتگردانہ پس منظر کے ساتھ روہنگیا مہاجرین کی شناخت ہوئی ہے۔ یہ ملک کی داخلی اور قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہوسکتا ہے۔ مرکزی حکومت نے کہا کہ روہنگیا مہاجرین کو یہاں رہنے کی اجازت دی گئی تو یہاں رہنے والے بدھ مت کے پیروکاروں کے خلاف تشدد ہونے کا پورا امکان ہے۔حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ اسے خفیہ ایجینسیوں سے معلوم ہوا ہے کہ بعض روہنگیا پناہ گزین پاکستان کی دہشت گرد تنظیموں اور وہاں کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے رابطے میں ہیں ،جس کے سبب وہ ملک کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔حکومت نے اپنے بیان حلفی میں مزید کہا کہ روہنگیا باشندوں کو غیر قانونی طریقے سے ملک میں لانے کے لیے برما، بنگال اور تریپورہ میں منظم گروہ کام کر رہے ہیں۔
حکومت نے کہا کہ ہندوستان میں آبادی زیادہ ہے اور سماجی، اقتصادی اور ثقافتی ڈھانچہ پیچیدہ ہے۔ ایسے میں غیر قانونی طور پر آئے ہوئے روہنگیا مہاجرین او کو ملک میں دستیاب وسائل میں سے سہولیات دینے سے ملک کے شہریوں پر برا اثر پڑے گا۔پناہ گزینوں کی نمائندگی کرنے والے ایک وکیل پرشانت بھوشن نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ حکومت نے قومی سلامتی کے خطرے کا ذکر کیا ہے لیکن عدالت میں کوئی ثبوت نہیں پیش کیا مگر حکومت کا کہنا ہے کہ وہ تین اکتوبر کو آئندہ سماعت کے دوران تفصیلات پیش کرے گی۔پناہ گزینوں نے سپریم کورٹ میں کہا ہے وہ برما میں بے پناہ مظالم، تشدد اور تفریق سے جان بچا کر کسی طرح یہاں پہنچے ہیں اور انہیں ملک بدر کیے جانے سے حقوق انسانی کے بین الاقوامی ضابطوں کی خلاف ورزی ہوگی۔عدالت عظمیٰ میں روہنگیا پناہ گزینوں کی نمائندگی فالی ناریمن، کپل سیبل، راجیو دھون، پرشانت بھوشن، اشونی کمار اور کولن گونزالز جیسے چوٹی کے وکلا کر رہے ہیں۔
بیشتر روہنگیا پناہ گزین میانمار میں 2012 کی شورش کے بعد ہندوستان آئے تھے۔ حکومت نے اگست کے اوائل میں پارلیمنٹ میں بتایا تھا کہ ملک میں کم از کم چودہ ہزار روہنگیا پناہ گزینوں کے نام اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے میں درج ہیں۔حکومت نے عدالت عظمیٰ میں جو بیان حلفی داخل کیا ہے اس میں ان پناہ گزینوں کی تعداد تقریباً چالیس ہزار بتائی گئی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ سبھی غیر قانونی تارکین وطن ہیں اور انہیں ملک سے نکالا جائے گا۔قانونی طور پر وہ دنیا کے کسی ملک کے شہری نہیں ہیں کیونکہ میانمار بھی انہیں اپنا شہری تسلیم نہیں کرتا۔حقوق انسانی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان پناہ گزینوں کو جبراً ملک بدر نہیں کیا جا سکتا۔گذشتہ ہفتے جینیوا میں اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل میں ادارے کے سربراہ نے برما کی صورتحال پر بحث کے دوران روہنگیا کو ملک بدر کرنے کی انڈیا کے فیصلے کی سخت مذمت کی تھی۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ انڈیا اپنی انسانی ذمے داریوں سے انحراف نہیں کر سکتا۔
اقوام متحدہ کی جانب سے نکتہ چینی کیے جانے کے بعد گزشتہ دنوں انڈیا میں حکومت کی سرپرستی والے حقوق انسانی کے قومی کمیشن نے روہنگیا پناہ گزینوں کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ حکومت کے ملک بدری کے فیصلے کی محالفت کرے گا۔روہنگیا پناہ گزینوں کو انڈیا میں کسی ادارے کی جانب سے کوئی مالی اعانت نہیں ملتی۔ بیشتر لوگ محنت مزدوری اور چھوٹے موٹے کام کر کے اپنا پیٹ پال رہے ہیں اور ان کیمپوں میں وہ انتہائی بدحالی کی زندگی گزار رہے ہیں۔