پنچایت سرٹیفکیٹ کو خواتین کی شہریت کا ثبوت تسلیم کرنے کی درخواست ، نوڈل آفسیر کی ویری فائیڈ نام این آر سی میں شامل کرنے کی تجویز ،آئندہ سماعت 24اگست کو
نئی دہلی :16/اگست(ایس او نیوز /آئی این ایس انڈیا)آسام میں غیر ملکی شہری معاملے میں گوہاٹی ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی جمعیت علماء ہند و دیگر کی عرضداشتوں پر آج سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ عدالت کے حکم پر مرکزی حکومت ، ریاستی حکومت اور اسٹیٹ کورڈی نیٹر کے داخل کردہ جوابات پر غور کرتے ہوئے عدالت نے فریقین سے چند سوالات کئے اور سماعت 24اگست تک کے لئے ملتوی کر دی۔ امکان ہے کہ عدالت 24اگست کو اس تعلق سے اپنا فیصلہ سنا ئے گی۔
جسٹس رنجن گوگوئی اور جسٹس نوین سنہا کی بنچ کے سامنے جمعی? علما ہند کی پیروی کرتے ہوئے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ گوہائی ہائی کورٹ کے ذریعے پنچایت سرٹیفکیٹ کو تسلیم کرنے سے انکارکرنے کی پاداش میں 48لاکھ خواتین کی شہریت پر خطرے کے جو بادل منڈلا رہے ہیں انہیں ختم کرنے کے لئے عدالت پنچایت سرٹیفکیٹ کو تسلیم کئے جانے کا حکم جاری کرے کیونکہ ان کے پاس اپنی شہریت ثابت کرنے کے لئے کوئی متبادل نہیں ہے البتہ عدالت ان سرٹیفکیٹس کو ویری فائی کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔عدالت نے اس سلسلے میں نوڈل آفیسر سے رائے طلب کی تو ا س کا کہنا تھا کہ جن خواتین کے سرٹیفکیٹ ویری فائی ہو چکے ہیں ان کا نام این آر سی میں شامل کیا جا سکتا ہے جبکہ باقی کا نام ان کے ویریفکیشن کے بعد ہی شامل کیا جائے۔ اس پر استغاثہ کے وکیل متفق نہیں تھے اور ان کی دلیل یہ تھی کہ 1997میں شہریت کے معاملہ میں ڈیڑھ لاکھ شہریوں کے نام کے آگے ’’ ڈی‘‘ لگا دیا گیا تھا اور یہ کہا گیا تھاکہ ان کی انکوائری ہوجانے کے بعد ان کے نام سے ڈی یعنی مشکوک ہٹا لیا جائے گا لیکن آج 20سال گذر جانے کے باوجود وہ معاملہ جوں کا توں ہے اور کچھ نہیں ہوا۔ اس لئے اگر ابھی تمام خواتین کا نام این آر سی میں شامل نہیں کیا جا سکا تو بعد میں ان کا نام شامل کرانے میں مزید دقعتیں پیش آئیں گی۔عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد سماعت 24اگست تک کے لئے ملتوی کر دی۔
عدالت میں سماعت کے دوران معروف وکیل کپل سبل، سلمان خورشید ،سنجے ہیگڑے،وویک تنکھا ،فضیل احمد ایوبی، اعجازمقبول اور راجیو دھون وغیرہ موجود تھے۔ واضح ہو کہ جمعیت علما ہند آسام شہریت کے معاملے میں 1954سے ہی پیروی کرتی آ رہی ہے اور اس وقت بھی مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیت علما ء ہند کی قانونی امداد کمیٹی اس معاملے میں سنجیدگی سے عمل پیرا ہے۔ واضح ہو کہ یہ معاملہ آسام کی تقریباً 48لاکھ خواتین کی شہریت پر منڈلا رہے خطرے سے متعلق ہے۔ آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹی زنس تیار کرنے کے عمل کے دوران گوہائی ہائی کورٹ کے شہریت کے ثبوت کے طور پر دیگر دستاویزات کے ساتھ گاؤ ں پنچایت یعنی پردھان کے سرٹیفکیٹ کو بھی قبول کرنے سے انکار کر دینے کے بعد یہ مسئلہ کھڑا ہوا ہے۔ یہ کام تقریباً مکمل ہی ہونے والا تھا کہ مرکز اور ریاست کی بی جے پی سرکارنے این آر سی کے لئے گاؤں پنچایت کے سرٹیفکیٹ کو ثبوت ماننے سے انکار کر دیا۔ ایسے میں وہ خواتین جن کی شادیاں اب سے 40۔50سال پہلے ہوچکی ہیں اور وہ بیاہ کر دوسرے گاؤں اور شہروں میں چلی گئیں انکے پاس ہندوستانی شہری ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے کیونکہ اس زمانے میں لوگ عام طور سے پیدائش سرٹیفکیٹ تک حاصل نہیں کرتے تھے ، لڑکیاں پانچویں چھٹی جماعت تک ہی اسکول جاتی تھیں اس لئے ان کے پاس اسکول کا سرٹیفکیٹ بھی نہیں ہے۔ ایسے میں صرف گاؤں پنجایت ہی یہ سرٹیفکیٹ دے سکتی ہے کہ فلاں عورت فلاںِ شخص کی بیٹی، بہن یا بہوہے لیکن اب اسے ریاستی حکومت ماننے کو تیار نہیں ہے جس کے بعد جمعیت علما ہند کی آسام یونٹ کے ساتھ ساتھ دیگر تنظیموں کوبھی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاناپڑا۔واضح ہو کہ آسام میں فرقہ پرست جماعتیں یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ 1950کے بعد ریاست میں آنے والے کوغیرملکی قرار دیاجائے جبکہ 1985میں وزیر اعظم راجیو گاندھی اور آسو کے درمیان معاہدہ میں یہ طے پایا تھا کہ جن کے پاس 25مارچ 1971تک آسام میں رہنے کے ثبوت ہیں انہیں ہندوستانی شہری تسلیم کیا جائے گا۔لیکن فرقہ پرست تنظیمیں ان دونوں ہی معاہدوں کو نظر انداز کر کے انکی مخالفت کر رہی ہیں اور اب ایک طرح سے انہیں حکومت کی بھی خاموش حمایت حاصل ہے۔