راجستھان بی جے پی کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے، ایم پی اور چھتیس گڑھ میں کانٹے کی لڑائی، راجستھان میں کانگریس اور تلنگانہ میں کے سی آر کا پلہ بھاری
نئی دہلی:8/نومبر(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا) سروے رپورٹ میں اس بات کا اشارہ دیا گیا ہے کہ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی کے مسلسل چوتھے مدت کے لئے جیت کر آنے کا امکان ہے، البتہ راجستھان میں بی جے پی کو جھٹکا دے کر کانگریس کے اقتدار میں آنے کے پورے آثار نظر آرہے ہیں۔
جہاں تک جنوبی ریاست تلنگانہ کا سوال ہے تو وہاں موجودہ وزیر اعلی کے سی آر کا جادو لوگوں کے سر چڑھ کر بول رہا ہے۔انڈیا ٹوڈے پولیٹکل اسٹاک ایکسچینج کے 10 ویں ایڈیشن کے مطابق مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے جیتنے کے امکانات 52 فیصد ہیں ۔سروے سے ظاہر ہیں کہ راجستھان میں بی جے پی کے جیت کا امکان صرف 35 فیصد ہے یعنی یہاں کانگریس کو صاف طور پر بھاری برتری حاصل ہے۔ چھتیس گڑھ میں رمن سنگھ کی قیادت میں بی جے پی کی جیت کا امکان 55 فیصد ہے۔ تلنگانہ میں کے سی آرکی قیادت والی تلنگانہ راشٹر سمیتی کو واضح برتری حاصل ہے ۔ سروے کے مطابق کے سی آر کی پارٹی کے انتخابات جیتنے کے امکانات 75 فیصد ہیں ۔
مدھیہ پر دیش: سروے کے مطابق مدھیہ پردیش میں 42فیصد ووٹروں نے مانا کہ موجودہ بی جے پی حکومت کو ہی ریاست میں اگلے انتخابات کے بعد ایک اور مدت کے لئے موقع ملنا چاہئے۔ سروے میں 40 فیصد شرکاء نے حکومت کو تبدیل کرنے کے حق میں رائے کا اظہارکیا۔ وہیں 18فیصدی اس معاملے میں کوئی واضح رائے کا اظہار نہیں کر سکے۔مدھیہ پردیش میں شیوراج سنگھ چوہان کی قیادت میں بی جے پی کی جیت کا امکان 52 فیصد ہے۔ اگرچہ مدھیہ پردیش میں بی جے پی اور کانگریس کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہونے کے آثار ہیں۔ یہاں دو پارٹیوں کے ووٹ شیئر کے درمیان 1۔3 فیصد کا فرق رہ سکتا ہے۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی شہری علاقوں میں ووٹوں کے بھاری فرق سے جیتنے کی پوزیشن میں ہے؛ لیکن دیہی علاقوں میں بی جے پی اور کانگریس کے درمیان ووٹوں کا فرق کم رہے گا۔ مدھیہ پردیش انتخابات میں با غیوں کا ووٹ کاٹنا، بڑا فیکٹر ثابت ہوگا۔ بی جے پی کے لئے 2 فیصدکی برتری آسان نہیں مانی جائے گی۔ مدھیہ پردیش میں اپوزیشن خیمے کے پاؤں بی جے پی کی مدد کر ر ہے ہیں ۔ اگر اس ریاست میں کانگریس اور بی ایس پی کا اتحاد ہو تا ہے تو اس کے جیتنے کے امکانات کہیں زیادہ ہوسکتے تھے ۔ مدھیہ پردیش میں بی ایس پی کا ووٹ شیئر 6 فیصد ہے۔ کانگریس کی جانب سے اگر جیوتی سندھیا کو وزیر اعلی کے عہدے کے لئے پارٹی کا چہرہ قرار دیا جاتا تو اس سے انتخابات میں اس کی مدد ملتی۔ نوجوان ووٹروں میں سندھیا خاصے مقبول ہیں۔مدھیہ پردیش میں وزیر اعلی کے لئے شیوراج سنگھ چوہان مقبولیت میں سب سے آگے ہیں۔اگرچہ گزشتہ دو ماہ میں ان کی مقبولیت میں معمولی کمی آئی ہے۔ ستمبر 2018 میں جہاں 46 فیصد ووٹر شیوراج کو سی ایم دیکھنا چاہتے تھے، وہیں نومبر میں 44 فیصد ووٹروں نے ان کے حق میں رائے کا اظہارکیا۔ شیوراج کے بعد سی ایم کے لئے مقبولیت کی دوڑ میں کانگریس لیڈر سندھیا سب سے آگے ہیں۔سندھیا کو جہاں ستمبر 2018 میں 32فیصد ووٹروں نے سی ایم کے لئے اپنی پسند بتایا تھا، وہی نومبر میں یہ اعداد و شمار گھٹ کر 28 فیصد رہ گیاہے ۔ کانگریس لیڈر کمل ناتھ کو ستمبر 2018 میں 8 فیصد ووٹروں نے وزیر اعلی بنانے کے لئے رائے ظاہر کی تھی۔ ابھی نومبر 2018 میں کمل ناتھ کی مقبولیت میں 2 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اب 10 فیصد ووٹر کمل ناتھ کو وزیر اعلی بنتے دیکھنا چاہتے ہیں۔سروے میں جب شرکاء سے پوچھا گیا کہ کیا کانگریس کی جانب سے بی ایس پی۔ایس پی سے اتحاد نہیں کرنا اس کی نقصان دہ ہوگا تو 24فیصد نے ہاں میں جواب دیا۔ 21 فیصد ووٹروں نے رائے ظاہر کی کہ کانگریس کی جانب سے ایسا اتحاد نہیں کرنا اس کی بھاری نہیں پڑے گا۔ اس سوال پر 55 فیصد ووٹر کوئی واضح رائے نہیں اظہار کر سکے۔سروے میں جب پوچھا گیا کہ کیا ایس سی ،ایس ٹی ایکٹ کے معاملے پر بی جے پی کے روایتی اعلی ذات ووٹر س اس سوال کے جواب میں 22 فیصد ووٹروں نے ہاں میں جواب دیا۔ وہیں 27 فیصد ووٹروں کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہو گا۔
راجستھان: سروے کے نتائج کے مطابق راجستھان میں بی جے پی کو بے دخل کر کانگریس اقتدار پر قبضہ کرنے جا رہی ہے۔ یہاں وسندھرا راجے کی قیادت والی بی جے پی حکومت کو 39 فیصد ووٹر ہی دوبارہ موقع دینے کے حق میں ہیں۔ وہیں 43 فیصد ووٹروں کا کہنا ہے ریاست میں حکومت تبدیل کیا جانا چاہئے۔ 18 فیصد ووٹر اس سوال پر کوئی واضح رائے نہیں اظہار کر سکے۔ سروے کے مطابق راجستھان میں بی جے پی کے ہاتھ سے اقتدار کھسکنے کے پورے آثار ہیں۔ یہاں وزیر اعلی وسندھرا راجے کے خلاف بھاری اقتدار مخالف رجحان دکھائی دے رہا ہے۔ اس ریاست میں بی جے پی کی جیت کا امکان محض 35 فیصد ہی ہے۔ راجستھان میں کانگریس جیت کے لئے پرسکون حالت میں ہے۔یہاں دونوں اہم پارٹیوں میں ووٹ شیئر فرق 3۔8فیصد رہنے کا امکان ہے۔ راجستھان میں دلتوں اور مسلمانوں میں بی جے پی کو لے کر بھاری ناراضگی ہے۔ ریاست میں بی جے پی روایتی شہری علاقوں میں ہی زمین کھو رہی ہے۔وزیر اعلی کے عہدے کے لئے مقبولیت کی بات کی جائے تو کانگریس جنرل سکریٹری اشوک گہلوت سب سے آگے ہیں۔ راجستھان میں اگر بی جے پی وزیر اعلی کے لئے پارٹی کا چہرہ تبدیل کیاجاتا تو انتخابات میں جنگ برابر کی ہوتی ۔راجستھان میں ریاستی سطح پر اقتدار مخالف رجحان ہے لیکن جہاں تک مرکزی حکومت کا سوال ہے تو وزیر اعظم نریندر مودی کی مقبولیت یہاں مسلسل رہتی ہے۔ کانگریس لیڈر اور سابق وزیر اعلی اشوک گہلوت راجستھان میں وزیر اعلی کے عہدے کے لئے مقبولیت کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔ گہلوت کی مقبولیت سب سے اوپر رہتی ہے۔ گہلوت کو ستمبر 2018 میں 35 فیصد ووٹر اگلا وزیر اعلی بننا دیکھنا چاہتے تھے۔ نومبر میں گہلوت کی مقبولیت کا یہ اعداد و شمار ابھی بھی غالب ہے۔ دوسری طرف موجودہ وزیر اعلی وسندھرا راجے کی مقبولیت میں گزشتہ دو ماہ میں 4 فیصد کمی آئی ہے۔ ستمبر 2018 میں وسندھرا راجے کو گہلوت کے برابر ہی 35 فیصدووٹروں کی حمایت حاصل تھی جو نومبر میں گھٹ کر 31فیصد ہی رہ گئی۔ کانگریس لیڈر سچن پائلٹ مقبولیت کی دوڑ میں تیسرے نمبر پر ہے۔ ستمبر 2018 میں سچن پائلٹ کو 11 فیصد ووٹر وزیر اعلی بنتے دیکھنا چاہتے تھے۔ نومبر 2018 میں بھی اتنے ہی ووٹروں نے انہیں وزیر اعلی کے لئے اپنی پسند بتایا۔سروے کے تحت راجستھان کی 25 لوک سبھا سیٹوں پر10,136شرکاء کی رائے لی گئی۔ یہ سروے 22 اکتوبر سے 6 نومبر کے درمیان ہوا۔
تلنگانہ:سروے کے مطابق تلنگانہ میں وزیر اعلی کے سی آر کی قیادت میں تلنگانہ راشٹر سمیتی پھر اقتدار میں واپس کرنے کے لئے جا رہی ہے۔ سروے میں 44فیصد ووٹروں کے مطابق موجودہ حکومت کو ہی اقتدار میں دوبارہ موقع دینا چاہئے۔ وہیں 34 فیصد ووٹروں کی رائے میں ریاست میں حکومت تبدیل کیا جانا چاہئے۔ اس صورت میں 22فیصد ووٹر کوئی واضح رائے نہیں اظہار کر سکے۔تلنگانہ میں مقبولیت کے معاملے میں موجودہ وزیر اعلی کے چندر شیکھر راؤ کے قریب بھی کوئی موجود نہیں ہے۔ سروے کے مطابق تلنگانہ میں کے سی آر کی تلنگانہ راشٹر سمیتی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل دکھائی دے رہی ہے۔ سروے کے مطابق کے سی آر کی پارٹی کی جیت کا امکان 75 فیصد ہے۔ یہاں حکمراں پارٹی کی حمایت میں واضح رجحانات ہیں ۔آبادی کے تمام طبقوں میں کے سی آر اپنی مقبولیت بنائے ہوئے ہیں۔سروے کے مطابق تلنگانہ میں کانگریس اور ٹی ڈی پی کا اتحاد کارگر ثابت ہوتا نظر نہیں آتا۔ مجلس اتحادالمسلمین رہنما اسد الدین اوویسی حیدرآباد کے علاقہ میں کانگریس کے امکانات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔تلنگانہ میں سماجی بہبود کے منصوبوں سے حکمران پارٹی کو انتخابات میں فائدہ ملنے جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ کے سی آر کا انتخابات کو مقررہ وقت سے پہلے ہی کرانے کا فیصلہ ماسٹر اسٹروک نظر آرہاہے ۔