مودی کا زوال یا راہل کا عروج ؟ فیصلہ منگل کو
نئی دہلی،10دسمبر(ایس اونیوز؍ایجنسی) نومبر اور دسمبر میں کئی مرحلوں میں5 ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے لئے ووٹ ڈالنے کا عمل پورا ہو چکا ہے۔ ان میں سے مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی اقتدار میں ہے۔جنوبی ریاست تلنگانہ میں ایک علاقائی جماعت اقتدار میں ہے جب کہ شمال مشرقی ریاست میزورم میں کانگریس برسراقتدار ہے۔ ان ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی منگل کی صبح ایک ساتھ شروع ہو گی اور شام تک سبھی نتائج آجانے کی توقع ہے۔یہ انتخابات ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب اب سے چند مہینے بعد پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی مدت میں اب صرف چند مہینے باقی بچے ہیں۔دوسری جانب ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد و بجرنگ دل جیسی ہندوتوا تنظیمیں یہ توقع کر رہی تھیں کہ واضح اکثریت سے اقتدار میں آنے والی بی جے پی ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا آغاز کرے گی۔ یہ تنظیمیں اب بے چین ہو رہی ہیں۔ وہ یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ مودی حکومت مندر کی تعمیر کے لئے ایک خصوصی آرڈیننس جاری کرے۔ماضی میں بی جے پی کو مندر کی تحریک سے سیاسی اور انتخابی فائدہ پہنچا ہے۔ کیا وہ آئندہ پارلیمانی انتخاب جیتنے کے لئے ایک بار پھر مندر کا سہارا لے گی؟ کیا مندر کے سوال سے اسے ایک بار پھر سیاسی فائدہ ہو سکتا ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا واضح جواب خود اس وقت بی جے پی کے پاس بھی نہیں ہے لیکن اس کا آئندہ پارلیمانی انتخاب سے گہرا تعلق ہے۔مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی 15 برس سے اقتدار میں ہے۔ راجستھان میں وہ 5 برس پہلے اقتدار میں آئی تھی۔ وہاں گزشتہ 25 برس سے کوئی بھی جماعت مسلسل دو بار جیت نہیں حاصل کر سکی ہے۔ میزورم میں کانگریس اقتدار میں ہے اور جنوبی ریاست تلنگانہ میں وہاں کی ایک علاقائی جماعت بر سراقتدار ہے۔ منگل کے انتخابی نتائج بی جے پی اور کانگریس دونوں کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔اگر بی جے پی ایک بار پھر مدھیہ پردیش اور راجستھان میں جیت جاتی ہے تو پارلیمانی انتخابات کے لئے یہ اس کی بہت بڑی نفسیاتی اور سیاسی کامیابی ہو گی۔ یہ جیت شکستہ کانگریس کو اور زیادہ پست کر دے گی اور پارٹی کے رہنما راہل گاندھی کی قیادت اور انتخابی اہلیت کے بارے میں دوسری سیاسی جماعتوں کے شکوک مزید پختہ ہو جائیں گے۔اس کے ساتھ ہی بی جے پی کے لئے پارلیمانی انتخاب میں اپوزیشن کا چیلنج ایک کمزور اور شکستہ مزاحمت سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔ ہندوتوا کا نظریہ نئی حکومت کے سیاسی فلسفے اور اصول کا محور ہو گا۔لیکن اگر کانگریس بی جے پی کے اقتدار والی ان 2 ریاستوں میں حکمراں جماعت سے اقتدار چھیننے میں کامیاب ہوجا تی ہے تو اسے آئندہ پارلیمانی انتخابات اور قومی سیاست میں اس کی ایک مؤثر اور فیصلہ کن واپسی سے تعبیر کیا جائے گا۔کانگریس کے حق میں یہ نتیجے ملکی سیاست کا رخ موڑ سکتے ہیں۔ راہل گاندھی کی قیادت کی اہمیت بڑھ جائے گی اور ملک کی شمالی ریاستوں میں بی جے پی کے خلاف ایک متحدہ محاذ تشکیل دینے کے راستے ہموار ہو جائیں گے۔ بی جے پی کی مشکلیں بہت بڑھ جائیں گی۔ اسے پارلیمانی انتخاب کے لئے ایک نئی حکمت عملی تیار کرنی ہوگی۔سیاست امکانات کا کھیل ہے۔ سیاست میں مستقل کچھ بھی نہیں ہے اور اسی لئے کہا جا سکتا ہے کہ منگل کو 5 ریاستوں کے انتخابی نتائج ملک میں سیاسی ہلچل پیدا کر سکتے ہیں۔