کانگریس صدربننے کے بعد راہل گاندھی کے لیے چیلنج ہوگا’مشن اترپردیش‘
لکھنؤ ،10؍دسمبر (ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا)راہل گاندھی کے کانگریس صدر عہدے پر فائز ہونے کے بعد ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج اتر پردیش میں پارٹی کو پھر سے کھڑا کرنے کا ہوگا۔اتر پردیش میں نہرو،گاندھی خاندان کی سماجی اور سیاسی ورثہ ہے، جو پانچ نسلوں تک جاری ہے۔ان کی بھی سیاسی زمین یہی ہے اور مستقبل کے سوال بھی یہیں سے وابستہ ہیں، لہٰذا’مشن اترپردیش‘ ان کے لیے بہت اہمیت کاحامل ہوگا۔سیاسی مبصرین کے مطابق اتر پردیش میں راہل کے لئے سب سے بڑا چیلنج کانگریس کو پھر سے کھڑا کرنے کاہوگا۔اس کے ساتھ ہی ان ریاستوں میں بھی پارٹی کو مضبوط کرنا ہو گا، جہاں اس وقت وہ حاشیے پر ہیں۔سیاسی تجزیہ کاررشیدقدوائی کے مطابق اتر پردیش میں مسلسل اپنی زمین کھونے والی کانگریس نے اس صوبے میں خود کو کھڑا کرنے کے لئے ہر طرح کی کوشش کر لی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ یا تو لیڈر عوام کا مزاج بدلے یا پھر عوام کے جذبات کو سمجھ کر اپنا ایجنڈا تیارکرے۔راہل میں اس وقت یہ دونوں ہی چیزیں اس درجے کی نہیں ہیں جو جواہر لال نہرو یا اندرا گاندھی میں تھیں۔
تاہم انہوں نے کہا کہ یہ بات بھی سچ ہے کہ لیڈر وقت کے ساتھ سیکھتا ہے۔جس طرح نہرو ہوا کے برعکس رخ اختیار کرنے کی ہمت رکھتے تھے۔اسی طرح اندرا گاندھی نے ہندوستانیوں کے جذبات کو سمجھ کر بنگلہ دیش بنوایا۔راہل کے سامنے وہی کرشمائی قیادت ثابت کرنے کا چیلنج ہے۔قدوائی نے کہا کہ کانگریس کے سامنے اتر پردیش میں تنظیم کی سطح پر بھی بڑے چیلنجز ہیں۔
گجرات انتخابات میں راہل کے بدلے ہوئے تیور کے بارے میں قدوائی کا خیال ہے کہ وہ ابھی تک سونیا گاندھی کے سائے میں تھے۔ذمہ داری ملنے پر لیڈر کی اصل خصوصیات کاپتہ چلتا ہے۔جب تک نہرو آگے رہے، تب تک اندرا ان کے سائے میں رہیں، لیکن ذمہ داری ملنے پر نہرو سے مختلف ان کی خصوصیات ظاہر ہوئیں۔اسی طرح راجیو گاندھی اور اندرا میں فرق تھا۔سونیاگاندھی راجیو سے مختلف ہیں۔جب کسی کو اقتدار ملتا ہے، تب اس کے کام کاج کا طریقہ پتہ چلتا ہے۔