قطر کا اقوام متحدہ میں دہشت گردی مخالف موقف کا اعادہ
دوحہ30جولائی(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)قطر نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عزم کا اعادہ کیا ہے اور اقوام متحدہ سے درخواست کی ہے کہ اس کا نام انسداددہشت گردی سکیم میں شامل کیا جائے۔قطر کی اقوام متحدہ میں مندوبہ عالیہ بنت احمد آل ثانی نے کہا ہے کہ دوحہ عالمی ادارے کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک تنظیموں کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے اور وہ ان کی کوششوں کی حمایت کرے گا۔انھوں نے کہا کہ ان کا ملک دہشت گردی اور اس کی تمام شکلوں کی مذمت کرتا ہے۔قطر کا بائیکاٹ کرنے والے ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین کا اس پر بڑا الزام ہی یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کی حمایت کرتا رہا ہے۔واشنگٹن میں متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف العتیبہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ چاروں ممالک کے پاس قطر کے خلاف مسلح ملیشیاؤں اور بین الاقوامی سطح پر دہشت گرد قرار دیے گئے گروپوں کی حمایت کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔یوسف العتیبہ نے پی بی ایس کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اگر دوحہ اپنی پالیسی کو جاری رکھتا ہے تو چاروں ممالک کو بھی اس کا بائیکاٹ جاری رکھنے اور اپنی سکیورٹی کے تحفظ کے لیے اقدامات کا حق حاصل ہے۔اماراتی سفیر نے واضح کیا ہے کہ قطر کے ساتھ تنازع کا سبب اس کی جانب سے 2013ء اور 2014ء میں الریاض میں کیے گئے سمجھوتوں کی پاسداری نہ کرنا ہے۔ان سمجھوتوں میں قطر سے یہ تقاضا کیا گیا تھا کہ وہ دہشت گرد گروپوں کی حمایت اور ان کی مالی معاونت دستبردار ہوجائے لیکن وہ عرب ممالک کے اس مطالبے کو پورا کرنے میں ناکام رہا تھا۔انھوں نے کہا کہ خلیجی ریاستیں اور مصر دوحہ کی پالیسیوں سے متفق نہیں ہوسکتے کیونکہ وہ ان کے مخالف سمت چل رہا ہے اور وہ خلیجی ریاستوں اور علاقائی ممالک کے مستقبل کا مخالف ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کہ اگر یو اے ای، سعودی عرب، مصر،اردن اور بحرین سے یہ پوچھا جائے کہ وہ کس قسم کا مشرق وسطیٰ چاہتے ہیں تو وہ سب اس کی مخالفت کریں گے جو قطر چاہتا ہے۔یوسف العتیبہ نے مزید کہا کہ ہم مزید سیکولر، مستحکم، خوش حال، بااختیار اور مضبوط حکومتیں چاہتے ہیں لیکن ہم نے قطر کی جانب سے گذشتہ دس سے پندرہ سال کے دوران میں اخوان المسلمون، حماس، طالبان اور شام اور لیبیا میں اسلامی ملیشیاؤں کی حمایت ملاحظہ کی ہے اور یہ ہمارے خطے کی ضروریات کے برعکس طرز عمل ہے۔یوسف العتیبہ نے اس انٹرویو میں یہ بھی پیشین گوئی کی ہے کہ امریکا کی قیادت میں عالمی اتحاد داعش کے خلاف جنگ میں فتح یاب ہوگا لیکن یہ دہشت گردی کے لیے رقوم کی ترسیل کی روک تھام کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔