شام میں روسی کارروائیاں فوجیوں کی تربیت اور جانچ کے لیے منفرد موقع ہیں : ولادی میر پوتین
ماسکو 8جون( ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا )روسی صدر ولادی میر پوتین نے کہا ہے کہ شام میں فوجی کارروائیاں ان کی فورسز کی تربیت اور حربی تیاریوں کی جانچ کا منفرد موقع فراہم کرتی ہیں۔انھوں نے سرکاری ٹیلی ویڑن سے جمعرات کو براہ راست نشر ہونے والے شو میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام میں دہشت گردوں کو نشانہ بنانا ،اس سے کہیں بہتر ہے کہ انھیں روس کے اندر نشانہ بنایا جائے۔
انھوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ روس شام سے تمام فوجیوں کے انخلا کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کررہا ہے۔روس نے ستمبر 2015 میں شامی صدر بشارالاسد کی حمایت میں باغیوں کے خلاف فوجی کارروائیاں شروع کی تھیں اور اس کی فضائی مہم کے نتیجے ہی میں شامی فوج کو باغیوں کے خلاف لڑائی میں پے درپے کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اور اسد حکومت باغیوں کے زیر قبضہ بہت سے علاقے واپس لینے میں کامیابی ہوگئی ہے۔
صدر پوتین نے دسمبر 2017 میں شام میں روسی فوجیوں کی تعداد میں کمی کا ا علان کیا تھا اور کہا تھا کہ شام سے روسی فوجیوں کو بتدریج واپس بلا لیا جائے گا۔اب ان کا کہنا ہے کہ روس اس مرحلے پر شام سے اپنے تمام فوجیوں کو واپس بلانے کا ارادہ نہیں رکھتا اور جب تک روس کا مفاد وابستہ ہے، وہ شام میں موجود رہیں گے۔شام میں اس وقت روس کے فوجی مشیر ، پائیلٹ ، ٹیکنیکل اسٹاف اور ملٹری پولیس کے اہلکار بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن روس نے ان کی حقیقی تعداد کبھی نہیں بتائی ہے۔
صدر پوتین کا کہنا تھا کہ شام میں روس کے زیر استعمال حمیمیم کا فضائی ہوائی اڈا اور طرطوس میں بحری اڈا شامی حکومت کی مدد کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ان کے بہ قول روس کے وہاں کوئی مستقل فوجی اڈے نہیں۔اس کا یہ مطلب ہے کہ روسی فوج کو کسی بھی وقت اور فوری طور پر شام سے واپس بلا یا جاسکتا ہے۔ساڑھے چار گھنٹے کے اس شو میں صدر ولادی میر پوتین نے مختلف عالمی موضوعات سے متعلق سوالوں کے جواب دیے ہیں۔انھوں نے 2016 میں امریکا میں منعقدہ صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت میں روس کی ممکنہ مداخلت کو ایک مذاق قرار دیا۔ان سے حال ہی میں سنے گئے بہترین لطیفے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ انھوں نے یہ جرمن میڈیا میں پڑھا ہے :’’ ٹرمپ یورپ کو پوتین کے ہاتھوں میں دھکیل رہے ہیں‘‘۔
انھوں نے امریکی انتخابات میں روس کی مداخلت سے متعلق رپورٹس کے بارے میں کہا کہ اگر ان دونوں کو ملا کر پڑھا جائے تو ایک اچھے لطیفے کی صورت سامنے آتی ہے۔انھوں نے کہا کہ یہ دونوں الزامات مکمل طور پر بچکانہ ہیں اور انھیں ایک مذاق ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔روس کے حوالے سے مقامی سوالات پر ان کا کہنا تھا کہ اظہار رائے کی آزادی کا احترام کیا جائے گا اور حکام کسی ویب سائٹ کو بند نہیں کررہے ہیں۔ان کی اس گفتگو سے دوماہ قبل روسی حکام نے روسی ساختہ پیغام رسانی کی ایپلی کیشن ٹیلی گرام کو انٹیلی جنس ایجنسیوں سے ڈیٹا شئیر کرنے سے انکار پر بلاک کرنا شروع کردیا تھا۔ٹیلی گرام نے مبینہ طور پر ایک سب وے پر بم دھماکے میں ملوث افراد کے بارے میں ڈیٹا شئیر نہیں کیا تھا۔روسی صدر نے اعتراف کیا ہے کہ انٹیلی جنس کمیونٹی ہمیشہ چیزوں پر پابندیوں یا بلاک کرنے کے رجحان کی حامل ہوتی ہے مگر اب وہ آزادیوں پر کسی قسم کی قدغنوں کے بغیر کوئی ’’مہذب حل‘‘ تلاش کرنے کی حوصلہ افزائی کریں گے۔