کولون میں اے ایف ڈی کا اجلاس اور احتجاجی مظاہرے بھی
کولون23اپریل(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)جرمن شہر کولون میں مہاجرت مخالف سیاسی جماعت اے ایف ڈی کے اجلاس کے موقع پر ہونے والے مظاہرے پرتشدد رنگ اختیارکر گئے جس کے باعث دو پولیس اہلکار زخمی ہو گئے جبکہ مشتعل مظاہرین نے پولیس کی ایک گاڑی بھی نذر آتش کردی۔خبر رساں ادارے روئٹرز نے جرمن حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ بائیس اپریل بروز ہفتہ مہاجرت مخالف سیاسی جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی کے شہر کولون میں منعقد ہونے والے ایک اہم اجلاس کے موقع پر سکیورٹی ہائی الرٹ رکھی گئی ہے۔ اس پارٹی کانگریس میں یہ سیاسی جماعت آئندہ الیکشن میں اپنی حکمت عملی وضع کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اے ایف ڈی کے ذرائع کے مطابق اس پارٹی کانگریس میں قریب چھ سو مندوبین شریک ہیں۔پولیس کے مطابق اس موقع پر کولون شہر میں پچاس ہزار مظاہرین کے جمع ہونے کی توقع ہے جبکہ پہلے ہی سے کسی ناخوشگوار واقعے کو روکنے کے لیے سکیورٹی کے چار ہزار اہلکار وہاں تعینات ہیں۔ پولیس کے مطابق ہفتے کے دن بالخصوص شہر کے مرکزی حصے میں ماحول کافی زیادہ کشیدہ ہو سکتاہے۔مقامی میڈیا کے مطابق کولون شہر میں اے ایف ڈی کے اجلاس کے موقع پر جہاں اس پارٹی کے حامی بھی مظاہروں میں شریک ہیں، وہیں بائیں بازو کے سیاسی کارکنان بھی شہر کے مختلف علاقوں میں اے ایف ڈی کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان مظاہرین کی تعداد ایک ہزار تک ہو سکتی ہے۔جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ کی لیڈر فراؤکے پیٹری نے تجویز کیا تھا کہ جرمن سرحد کو غیرقانونی طریقے سے عبور کرنے والوں کے خلاف ہتھیار استعمال کیے جائیں۔ یہ جماعت جرمنی میں یورپی اتحاد پر شکوک کی بنیاد پر قائم ہوئی اور پھر یہ یورپی انتظامی قوتوں کے خلاف ہوتی چلی گئی۔ کئی جرمن ریاستوں کے انتخابات میں یہ پارٹی پچیس فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ مظاہرین اورپولیس کے مابین جھڑپوں کے باعث کم ازکم دو پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔ مقامی میڈیا کے مطابق کچھ مشتعل مظاہرین نے پولیس کی ایک گاڑی کو آگ بھی لگا دی، جس کے جواب میں سکیورٹی پر مامور اہلکاروں نے مظاہرین کو منشتر کرنے کی خاطر پَیپر اسپرے بھی کیا۔دائیں بازو کی سیاسی جماعت اے ایف ڈی جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی مہاجر دوست پالیسی کو سخت تنقید کا نشانہ بناتی ہے۔ سخت گیر موقف کی وجہ سے اے ایف ڈی کو عوامی سطح پر کچھ مقبولیت بھی حاصل ہوئی ہے۔ رواں برس ستمبر کے پارلیمانی انتخابات سے قبل کرائے جانے والے مختلف عوامی جائزوں کے مطابق اس پارٹی کو دس فیصد تک عوامی حمایت حاصل ہو چکی ہے۔