کاروار13؍جون (ایس او نیوز) ساحلی کرناٹکا میں نیشنل ہائی وے کو فو ر لین میں تبدیل کرنے کا جو منصوبہ زیر تکمیل ہے اور اس کے لئے پہاڑوں کی کھدائی کے بعد بارش میں جس طرح کے خطرات آس پاس کے مکانات اور سڑک پر دوڑتی گاڑیوں پر منڈلاتے ہیں، اسے دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ اس شاہراہ سے گزرنا ہوتو مسافروں کو اپنی جان ہتھیلی پہ لے کر نکلنا ہوگا۔
جانکاروں کا کہنا ہے کہ پہاڑیوں کو کاٹنے یا بارود سے اڑانے کا کام نہایت غیر معیاری اور غیر سائنٹفک اندازمیں انجام دیا جارہا ہے، اور کٹے ہوئے پہاڑوں کے باقی بچے ہوئے تودے اور چٹانیں ساحلی علاقے کی موسلادھار بارش برداشت نہیں کرپارہی ہیں اور ہر وقت ڈھلنے اور کھسکنے کے لئے تیار نظر آتی ہیں۔ کاروار سے کنداپور تک پھیلے ہوئے علاقوں میں اکثر مقامات پر پہاڑیوں کے ڈھلنے اور کھسکنے کے منظر دکھائی دیتے ہیں۔کاروار کے بینگا سے آمدالی تک کٹی ہوئی چٹانیں بڑے خطرنا ک انداز میں کھڑی ہوئی ہیں، اور چونکہ یہاں سِل کی پہاڑیا ں ہیں اس لئے اس کے کھسک کر روڈ پر گرنے سے زیادہ نقصانات ہونے کے امکانا ت ہیں۔
خاص کرکے سداشیوگڑھ کی پہاڑی جس کو توڑنے کا کام ایک مدت سے جاری ہے، اب بھی خطرے کاسگنل دے رہی ہے۔کچھ مہینوں پہلے اس پہاڑی سے ایک بڑا تودہ کھسک کر ہائی وے پر دوڑتی ہوئی کار پر گر گیا تھا جس میں سفر کرنے والے میاں بیوی شدید زخمی ہوگئے تھے۔اس کے علاوہ ایک بار آدھی رات کو چٹان کھسک گئی تھی جس کی وجہ سے دو دن تک اس سڑک پر ٹریفک معطل ہوگئی تھی۔اب بھی خطرہ یہ ہے کہ اگر بہت تیز اور موسلا دھار بارش ہوئی تو پھر سے یہاں پر پہاڑی کھسکنے سے بہت بڑا نقصان ہوسکتا ہے، کیونکہ یہاں پر گاڑیوں کی آمد و رفت رات دن مسلسل جاری رہتی ہے۔
کچھ یہی صورتحال انکولہ،ہوناور ، کاسرکوڈ،منکی، مرڈیشور، وینکٹاپور، بھٹکل کے بعض علاقوں میں دکھائی دیتی ہے جہاں کٹی ہوئی چٹانیں خطرے کی گھنٹیاں بجارہی ہیں۔بیندوراور کمٹہ کے دیوگی میں پہاڑی تودے کھسکنے اور مٹی کے ڈھیر بیچ سڑک پر لگ جانے کے واقعات کے بعد اب گوکرن کے قریب مادن گیری میں پہاڑی کھسکنے کا حادثہ پیش آیا جس سے کچھ گھنٹوں کے لئے ایک طر ف سے گاڑیوں کی آمد روفت بری طرح متاثر ہوئی۔کمٹہ تعلقہ کے مزید مقامات پر پہاڑی چٹان کھسکنے کا اندیشہ اپنی جگہ موجود ہے۔دیوگی کے جان لیوا حادثے اور اس سے پہلے برگی کے گیس ٹینکر حادثے کے خوفناک لمحات لوگوں کے ذہنوں میں ابھی تازہ ہیں جس سے یہاں کے لوگ خوف وہراس کے ماحول میں جینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔