بھٹکل یکم ؍ اکتوبر(ایس او نیوز)گزشتہ کچھ عرصے قبل ضلع انچارج وزیر نے جب بھٹکل کا دورہ کیا تھا تو انہوں نے اخبارنویسوں کے سامنے وعدہ کیاتھا کہ نیشنل ہائی وے 66کی توسیع کے لئے جو زمینیں سرکار اپنی تحویل میں لے رہی ہے، اگر بالفرض اس میں غیر قانونی قبضہ کی گئی ( اتی کرم ) زمین بھی شامل ہوتو انسانیت اور رحمدلی کی بنیاد پر ایسے لوگوں کو بھی معاوضہ اداکیا جائے گا۔بعد میں وزیرموصوف نے کاروار میں منعقدہ ایک میٹنگ میں بھی اس بات کا اعلان کیا تھا کہ ریاستی حکومت غریب لوگوں کے ساتھ ہے اور ہائی وے پر جانے ولی زمینات کے بدلے میں غریبوں کو معاوضہ فراہم کیا جائے گا۔
لیکن اب شاہراہ کا توسیعی کام آگے بڑھ رہا ہے تو نیشنل ہائی وے سے قریب غیر قانونی قبضہ کرکے جن لوگوں نے اپنے گھر بار بسائے تھے ان سب کو لازمی طور پر زمینیں خالی کرنا پڑ رہا ہے،اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان تمام اتی کرم کردہ زمین والوں کو معاوضہ ادا کردیا گیا ہے؟
اصلیت یہ ہے کہ ہائی وے کے کنارے پر اتی کرم کی گئی زمینوں کو سرکاری زمین قرار دے کرقبضے میں لیا جارہا ہے۔ اس طرح ضلع شمالی کینرا میں توسیعی کام کے لئے زمینیں خالی کرنے کی کارروائی سے سیکڑوں خاندان بے یار و مددگارسڑک پرآ گئے ہیں، کیونکہ انہیں کسی قسم کی راحت یا معاوضہ کے نام پر ایک پیسہ بھی نہیں دیا جارہا ہے۔وہ لوگ حسرت بھری آنکھوں سے جے سی بی مشینوں کے ذریعے اپنے بسے بسائے گھروں کو نیست و نابود ہوتے ہوئے دیکھنے پر مجبور ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ نیشنل ہائی وے کے قریب اتی کرم کرکے رہائشی عمارتیں یا چھوٹی موٹی دکانیں تعمیر کرنے والوں کی مجبوری اور پریشانیوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے ضلع انچارج وزیر آر وی دیشپانڈے نے ریاستی حکومت کی جانب سے مرکزی وزارت ٹرانسپورٹ کو مراسلہ بھیجا تھا جس میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایسے لوگوں کو معاوضہ دینے کی سفارش کی گئی تھی۔ اس کے جواب میں مذکورہ وزارت کی طرف سے موصولہ جواب میں اس تجویز کو منظوری دی گئی تھی۔
لیکن نیشنل اتھاریٹی آف انڈیا کے افسران تحویل میں لی گئی زمینوں کا معاوضہ اداکرتے وقت صرف ان لوگوں کو ہی معاوضہ دینے کا اصول اپنا رکھا ہے جن کے پاس زمین کے تعلق سے مالکانہ حقوق کے دستاویزات موجود ہیں۔ اس وجہ سے یہ سیکڑوں افراد معاوضے سے محروم ہوگئے ہیں۔