مظفرنگرفسادات معاملے میں بی جے پی لیڈروں کی مشکلات میں اضافہ، ڈی ایم کا مقدمہ واپس لینے سے انکار
مظفرنگر،12اگست(ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا) مظفر نگرفسادات معاملوں میں مقدمے کا سامنا کررہے بی جے پی لیڈروں کی مصیبت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ مظفر نگر کے ڈی ایم نے ان لیڈروں کے خلاف کیس واپس لینے سے انکار کردیا ہے۔ اس سے یوگی حکومت کے لئے بھی پریشانیاں کھڑی ہوگئی ہیں۔
دراصل یوگی حکومت کے ذریعہ پارٹی کے دو ممبران پارلیمنٹ اورتین ممبران اسمبلی سمیت درجنوں لیڈروں کے خلاف سال 2013 میں ہوئے مظفرنگرفرقہ وارانہ فساد میں درج مجرمانہ معاملوں کو واپس لینے کی مبینہ کوشش کو جھٹکا لگا ہے۔
خبرکے مطابق یوگی حکومت نے 6 ماہ قبل مقدمے واپس لینے کے لئے ڈی ایم سے رپورٹ مانگی تھی، لیکن موجودہ ڈی ایم راجیوشرما نے مقدمہ واپس لینے سے انکارکردیا ہے۔ اس معاملے میں ڈی ایم نے اپنی رپورٹ وزارت قانون کو بھیج دی ہے۔ حالانکہ قانونی ماہرین کے مطابق حکومت چاہے تو ڈی ایم کی رپورٹ کو خارج کرسکتی ہے۔
واضح رہے کہ بی جے پی لیڈروں پرالزام ہے کہ انہوں نے اگست 2013 میں ایک مہا پنچایت کا انعقاد کرکے اپنی اشتعال انگیزتقریروں سے لوگوں کو تشدد کے لئے بھڑکایا تھا۔ اس کے بعد مظفرنگراورآس پاس کے علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑک اٹھیتھے۔ ان فسادات میں 60 لوگ مارے گئے تھے اور40 سے زیادہ لوگ بے گھرہوئے تھے۔ دراصل مغربی یوپی کے ایک نمائندہ وفد نے گزشتہ 6 فروری کو وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے ملاقات کی تھی۔
سابق مرکزی وزیراور بی جے پی ممبرپارلیمنٹ سنجیو بالیان، ممبراسمبلی امیش ملک، سادھوی پراچی، اترپردیش کے وزیرسریش رانا، ممبرپارلیمنٹ بھارتیندوسنگھ، سنگیت سوم کے خلاف معاملے درج ہیں۔
مظفر نگر ضلع کے کوال گاوں میں 27 اگست 2013 کو جاٹ ۔ مسلم تشدد کے ساتھ فساد شروع ہوا تھا۔ کوال گاوں میں مبینہ طورپرایک جاٹ طبقے کی لڑکی کے ساتھ ایک مسلم لڑکے کی چھیڑخانی سے یہ معاملہ شروع ہوا۔ اس کے بعد لڑکی کے اہل خانہ کے دوماموں زاد بھائی گورواورسچن نے شاہنوازنام کے لڑکے کو پیٹ پیٹ کرمارڈالا تھا۔ اس کے بعد مسلمانوں نے دونوں نوجوانوں کو جان سے مارڈالا۔ اس کے بعد علاقے میں تشدد کا ماحول بن گیا اورلوگوں کی جانیں جانیں کے بعد یہاں پولیس، مسلح افواج اورسی آرپی ایف کو تعینات کیا گیا تھا۔