مسلم قیادت اور ہندوستانی مسلمان تحریر: حسن مدنی ندوی

Source: S.O. News Service | By Safwan Motiya | Published on 13th July 2016, 5:23 PM | آپ کی آواز |

افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر                     کرتے ہیں خطاب آخر اٹھتے ہیں حجاب آخر
بر صغیر جب فرنگیوں کی گرفت سے آزاد ہوا تو وہ اندرونی خانہ جنگی کا شکار ہو گیا، مسلم لیگ نے انگریزوں کے بل بوتے پر اسلام کے نام پر علیحدہ ملک قائم کرلیا اور کانگریس نے ہندوستان کی باگ ڈور سنبھالی،اس طرح سے صلیبی و صہیونی سازشیں اپنے خفیہ مقصد میں کامیاب ثابت ہوئیں ، کیونکہ ہندوستان میں مسلم طبقہ اقلیت میں شمار ہونے لگا نیز یہا ں بہت سے فتنہ پرور اور شدت پسندانہ ذہنیت کے حاملین نے یہ نعرہ دیا کہ ہندوستان پر صرف ہندؤوں کا حق ہے اور مسلمانوں کا ملک پاکستان ہے ،اس نظریہ سے مسلمانوں کو سخت ٹھیس پہنچی اور انکو فکری و مادی مشاکل و مصائب کا سامنا کرنا پڑا ،چونکہ آزادی ہند میں مسلمانوں کی بے پناہ قربانیاں تھیں،جان و مال کی بازیاں انہوں نے لگائی تھیں ،اور اس وقت قطعا کسی بھی مسلمان کا یہ نظریہ نہ تھا کہ وہ اپنے ملک بنانے کے لئے یہ قربانیاں دے رہے ہیں بلکہ گنگا جمنی تہذیب سے آراستہ اس دیش کو حاصل کرنا تھا جہاں وہ اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھائی چارے سے رہا کرتے تھے ،جہاں انہوں نے تاج محل بنایا تھا،جہاں انہوں نے قطب مینار کھڑا کیا تھا ،جہاں انہوں نے لال قلعہ اور چار مینار تعمیر کئے تھے ،جہاں انہوں نے کوہ نور حاصل کیا تھا،جہاں کی سرزمیں کو انہوں نے سونے کی چڑیا بنایا تھا،لیکن دشمنوں کو یہ زرخیزی قطعا نہ بھہائی اور انہوں نے سیکڑوں دیش بھگتوں کو شہید کرکے اس کو جبرا و طوعاوکرہا چھوڑا ،لیکن اسکے ساتھ وہ اپنی الحادی ،تخریبی ،فسادی،فحاشی ،لادینی روش کا پودا لگاکر چلتے بنے ،جسے بعد میں انکے بھگتوں اور پیروکاروں نے شجر مثمر بنانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیا ۔
ایسے ناگفتہ بہ حالات میں ہندوستان کو مزید سیاسی انقلاب کی ضرورت آن محسوس ہوئی تو بہت سی تنظیمیں اور پارٹیاں سچائی ،وفاداری اور امانت داری کے شعار کی دعویدار بن گئیں، پھر ذات پات کا کاروبار شروع ہوا ،دلت سماج کی بہوجن سماج ہوگئی ،بنیوں کی کانگریس ،یادووں کی سماج وادی ،اور بر ہمنوں کی بی جے پی ،ان میں بی جے پی کو چھوڑ کر سبھی پارٹیا ں سیکولرزم کے نام پر مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرکے یک بعد دیگر سرکار بناتی آئی ہیں ،اور مسلمان ان کے تئیں افراط و تفریط کا شکار ہیں ،انہوں نے کبھی ملائم کو ملا مانا ،کبھی مایاواتی کو بہن جی مانا اور اس کشمکش کا اکثریت نے فائدہ اٹھا یا،ان حالات اور بالخصوص مضبوط سیاسی پس منظر نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں نے بے انتہاء مصیبتیں جھیلیں .کبھی گجرات میں مارے گئے ،کبھی مظفر نگر میں کاٹے گئے ،کہیں مسجدیں شہید کی گئیں ،کہیں مزارات ڈھائے گئے ،ماں بیٹیوں کی عزتیں نیلام کی گئیں ،بچوں اور بڑوں کو سر عام قتل کیا گیا وغیرہ وغیرہ....ان حالات نے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب و ثقافت کو پوری دنیا کے سامنے شرمسار کر کے رکھ دیا .
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے                              خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائیگا
یہاں کی شکشا ،یہاں کی پرکشا،یہاں کا کرتویہ،یہاں کی پرمپرا،یہاں کا انوشاسن کو بدنام کرنے کی ناپاک کوششیں کی گئیں ،
بھائی چارہ،امن وشانتی،اتحادو اتفاق ،محبت و الفت کو نیست و نابود کیا گیا۔
لیکن خدا کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں ! سرزمین دکن میں ایک انقلابی طوفان آیا جس نے دور خلافت و ملوکیت کی یادیں تازہ کرادیں ،سالار ملت صلاح الدین اویسی نامی باہمت ،شجاع و دلیر جواں مرد نے ظلم اور نا انصافی ،شدت پسندی وفرقہ پرستی کے خلاف صدا بلند کی جو آ ج ہندوستان کے ہر گوشہ میں سنائی دے رہی ہے ،اسلامی سیاست ،سیکولر راج نیتی ،جمہوری روش،قلندرانہ ادائیں اور سکندرانہ جلال کا حقیقی آئینہ مجلس اتحاد المسلمین نے ہندوستان کی عوام کے سامنے پیش کیااور فرقہ پرستوں کے لئے برہنہ شمشیر ثابت ہوئی ،اور دور حاضر میں اسد الدین اویسی صاحب کی زیر قیادت تنظیم مہاراشٹر میں ابتدائی کامیابی سے سرفراز ہوتے ہوئے اترپردیش میں اپنی صلاحیت ،اپنے اسلوب اپنی روش کا لوہا منوانے والی ہے ۔
مجلس کا نظریہ تمام اقلیتی طبقوں کے سیاسی معاملات سے ہم آہنگ ہے کیونکہ اس کا دارومدار ہی حق اور انصاف ،عدل اور اعتدال،امن اور شانتی پر ہے ،شرپسندوں کی ایک بڑی تعداد نے مجلس پر لایعنی الزامات تھوپے ہیں اور بدستور یہ کہتے ہیں کہ مجلس فرقہ پرستی و دہشت گردی کا سمرتھن کرکے اسے فروغ دیتی ہے ،مجلس ایک خاص طبقہ کیلئے کام کرتی ہے .الخ۔
یہ سب وہ کارستانیاں ہیں جو ازل ہی سے حق کے آڑے آتی رہی ہیں لیکن اہل حق ان کانٹوں کو ختم کرتے چلے گئے اور چمن کی حفاظت کرتے گئے ،اور ہمیں امید ہے کہ اس گلزار کی آیئندہ مستقبل میں کارکنان مجلس حفاظت کرتے رہینگے ،
صبروحوصلہ اور عزم و ارادہ کے ساتھ حق کے پیغام کو عام کرینگے ، مسلکی و مذہبی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے راہ اعتدال قائم کرینگے ،برشٹاچار اور کرپشن کا مقابلہ کرکے امن و استحکام کی فضاء قائم کرینگے ،آخر میں بس یہ پیغام دونگا کہ:
نشیمن پر نشیمن اس قدر تعمیر کرتا جا                              کہ بجلی خود گرتے گرتے بیزار ہوجائے 
 

ایک نظر اس پر بھی

تبلیغی جماعت اور اس کے عالمی اثرات ..... از: ضیاء الرحمن رکن الدین ندوی (بھٹکلی)

​​​​​​​اسلام کا یہ اصول ہے کہ جہاں سے نیکی پھیلتی ہو اس کا ساتھ دیا جائے اور جہاں سے بدی کا راستہ پُھوٹ پڑتا ہو اس کو روکا جائے،قرآن مجید کا ارشاد ہے۔”تعاونوا علی البرّ والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان“

سماجی زندگی میں خاندانی نظام اور اس کے مسائل۔۔۔۔۔۔از: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

 سماج کی سب سے چھوٹی اکائی خاندان ہوتا ہے، فرد سے خاندان اور خاندان سے سماج وجود میں آتا ہے، خاندان کو انگریزی میں فیملی اور عربی میں اُسرۃ کہتے ہیں، اسرۃ الانسان کا مطلب انسان کا خاندان ہوتا ہے جس میں والدین ، بیوی بچے اور دوسرے اقربا بھی شامل ہوتے ہیں، خاندان کا ہر فرد ایک ...

تحریک آزادی اور امارت شرعیہ۔۔۔۔۔۔از: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

امارت شرعیہ کے اکابر نے غلام ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے جو جہد کی، وہ تاریخ کا روشن باب ہے،ترک موالات، خلافت تحریک اورانڈی پینڈینٹ پارٹی کا قیام تحریک آزادی کو ہی کمک پہونچانے کی ایک کوشش تھی، بانی امارت شرعیہ حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ(ولادت ...

بھٹکل: تعلیمی ادارہ انجمن کا کیسے ہوا آغاز ۔سوسال میں کیا رہیں ادارے کی حصولیابیاں ؟ وفات سے پہلےانجمن کے سابق نائب صدر نے کھولے کئی تاریخی راز۔ یہاں پڑھئے تفصیلات

بھٹکل کے قائد قوم  جناب  حسن شبر دامدا  جن کا گذشتہ روز انتقال ہوا تھا،   قومی تعلیمی ادارہ انجمن حامئی مسلمین ، قومی سماجی ادارہ مجلس اصلاح و تنظیم سمیت بھٹکل کے مختلف اداروں سے منسلک  تھے اور  اپنی پوری زندگی  قوم وملت کی خدمت میں صرف کی تھی۔بتاتے چلیں کہ  جنوری 2019 میں ...

تفریح طبع سامانی،ذہنی کوفت سے ماورائیت کا ایک سبب ہوا کرتی ہے ؛ استراحہ میں محمد طاہر رکن الدین کی شال پوشی.... آز: نقاش نائطی

تقریبا 3 دہائی سال قبل، سابک میں کام کرنے والے ایک سعودی وطنی سے، کچھ کام کے سلسلے میں جمعرات اور جمعہ کے ایام تعطیل میں   اس سے رابطہ قائم کرنے کی تمام تر کوشش رائیگاں گئی تو، سنیچر کو اگلی ملاقات پر ہم نے اس سے شکوہ کیا تو اس وقت اسکا دیا ہوا جواب   آج بھی ہمارے کانوں میں ...