گوری لنکیش کے قتل میں قانون کی ناکامی کا کتنا ہاتھ؟ وارتا بھارتی کا اداریہ ............ (ترجمہ : ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ )
گوری لنکیش کے قاتل بہادر تو ہوہی نہیں سکتے۔ساتھ ہی وہ طاقتور اورشعوررکھنے والے بھی ہیں۔ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ایک تنہا اور غیر مسلح عورت پر سات راؤنڈگولیاں چلانے والے کس حد تک بزدل اورکس قسم کے کمینے ہونگے۔مہاتما گاندھی کو بھی اسی طرح قتل کردیا گیا تھا۔وہ ایک نصف لباس اور لوٹے والے فقیر تھے۔ صرف زبان پر رام نام کے علاوہ ان کے پا س کوئی بھی ہتھیار نہیں تھا۔سخت ضعیفی الگ تھی۔ایسی شخصیت کا مقابلہ فکر اور سوچ کی سطح پر کرنے کی طاقت نہ رکھنے اور انہیں گولی مارکر ہلاک کرنے والے گوڈسے کی نسل کے لوگ پورے ملک میں اسی بزدلانہ انداز میں پرتشدد سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
دنیا کی کوئی بھی انتہا پسندتنظیم ہو،وہ ظالمانہ کارروائی انجام دینے کے بعداس کی ذمہ داری اپنے سر لینے کا اعلان کرتی ہے۔لیکن بھارت میں پیدا ہونے والے انتہا پسند زہریلے سانپ ظلم ڈھانے میں اس سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔یہ دیش پریم ، کلچراور دھرم کا نقاب چہروں پر اوڑھے رکھتے ہیں۔انہوں نے ذلیل حرکتیں بہت ہی خفیہ انداز میں انجام دینے کے سوا اس کو قبول کرنے کی جرأت انہوں نے آج تک نہیں دکھائی ہے۔مکہ مسجد بم دھماکہ، مالیگاؤں بم دھماکہ،سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ خود انجام دے کر دوسروں کے سر منڈنے والے زہریلے سانپوں کے بل میں دھواں چھوڑ کر باہر لانے کا کام (ہیمنت) کرکرے نے کیا تھا۔اس کے ساتھ اس پولیس ٹیم کوہی پراسرار طریقے پر ہی ختم کردینا ایک تاریخ بن گیا ہے۔اتنا ہی نہیں، پانسارے، دابولکر جیسے بزرگ ترقی پسند مفکرین کوقتل کرکے روپوش ہونے والا بھی یہی انتہا پسند ٹولہ ہے۔فکری طور پر تنقید کرنے والوں،بدعقیدگی اورغیر مہذب عمل کے خلاف بولنے والوں کو دیکھتے ہی تھر تھر کانپنے والے ان لوگوں نے چوری چھپے انہیں قتل کرکے بتادیا ہے کہ ان کی تہذیب کیا ہے۔
دو سال قبل انہی بزدلوں نے کلبرگی کو قتل کردیا تھا۔ دو سال گزرنے کے باوجودپولیس سے یا تحقیقاتی ایجنسی سے کلبرگی کے قتل کا راز تلاش کرناممکن نہیں ہوپایا ہے۔اگر پانسارے اور دابولکر کے قتل کی تحقیقات پوری سنجیدگی سے کی جاتی اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا ہوتاتو پھر کلبرگی کا قتل نہیں ہوتا۔اگر کلبرگی کے قتل کی تحقیقات میں پولیس کامیاب ہوجاتی تو پھر گوری لنکیش آج زندہ ہوتیں۔سابقہ قتل کے معاملات میں ملزموں کا قانون کے ہاتھ سے بچ جاناہی انہیں ترقی پسند فکر رکھنے والوں کے تازہ قتل کے لئے ہمت دلاتا ہے۔لہٰذا گوری لنکیش کے قتل کو ہم صرف گوڈسے کی اولاد کے سر ڈال کر خاموش نہیں رہ سکتے۔قانون کی کمزوری ہی ان بزدلوں کو "جوانمردوں اور بہادروں"کے روپ میں ڈھالتی ہے۔قانون جب اپنی ذمہ داری بھول جاتا ہے تو پھر ایسی سماج دشمن طاقتیں ابھر کر آجاتی ہیں۔
گوری کے قتل میں بھی یہی ہوا ہے۔کچھ عرصے قبل ہی ریاست بھر میں کلبرگی کے قاتلوں کو تلاش کرنے کے لئے دباؤ بنانے کی مہم چلی تھی۔اس میں گوری لنکیش بہت ہی آگے آگے تھیں۔عجیب اتفاق ہے کہ کلبرگی کے قاتلوں کی گرفتاری کے لئے اصرار کرنے والی گوری لنکیش خود ہی قتل ہوگئیں۔قاتلوں نے اس طرح پورے سسٹم کے ساتھ مذاق کیا ہے اور اس پر ہی سوالیہ نشان لگادیا ہے۔کم از کم اب تو اس سوال کو قبول کرتے ہوئے اس کا جواب دینے کی ذمہ داری ہمارے نظام قانون کی بن جاتی ہے۔
کلبرگی کا قتل ہونے پرکچھ لوگوں کی طرف سے اسے ذاتی معاملات کا نتیجہ قرار دینے اور تحقیقات کا رخ موڑنے کی کوشش کو ہمیں یاد رکھنا ہوگا۔اب وہی کوشش گوری لنکیش کے معاملے میں بھی کی جارہی ہے۔لیکن ہمیں ایک بات یاد رکھنی ہوگی۔آج گوری کے قتل پر کون لوگ خوشی منارہے ہیں؟ آنند مورتی فوت ہونے پر پٹاخے چھوڑنے والے،کلبرگی کے قتل پر خوشی کا اظہار کرنے والے ہی اب گوری لنکیش کے قتل پر کھلکھلارہے ہیں۔سوشیل میڈیا پر غیر مہذب اورمنفی پیغامات پوسٹ کرکے خوش ہورہے ہیں۔ گوری کو قتل کرنے کی ضرورت کس کو تھی، یہ بات ان تحریروں سے ہی ہم جان سکتے ہیں۔کلبرگی کا جب قتل ہواتھا تو ساحلی علاقے میں سنگھ پریوار کے ایک نوجوان نے نہ صرف جشن منایا تھابلکہ "ابھی بہت سے ترقی پسندوں کے قتل ہونے باقی ہیں "جیسی دھمکی بھی دے ڈالی تھی۔حالانکہ اسے گرفتار تو کیا گیا تھا مگر 24گھنٹے کے اندر اس کوضمانت پر رہا بھی کردیاگیا تھا۔لیکن اس رہائی کاآئندہ کتنا برا انجام ہونا تھا اس کامشاہدہ بھی ہم نے کرلیا۔اسی ملزم نے فرقہ وارانہ فساد برپا کرنے کے لئے ایک معصوم نوجوان کو چاقو مارکر ہلاک کرڈالا۔اس نے مسلم سمجھ کر ہریش پجاری نامی نوجوان کو قتل کرڈالاتھا۔اگر اسے سابقہ معاملے میں کچھ عرصہ جیل میں سڑنے دیاجاتاتو کیا وہ اس طرح کی کارروائی انجام دے سکتا تھا؟قانونی کی کمزوری نے اسے اور زیادہ سنگین جرم انجام دینے کی ہمت دلائی تھی۔
اب گوری کے قتل پر بھی سوشیل میڈیا پر کچھ زعفرانی انتہاپسندبے ہودہ قسم کے پیغامات پوسٹ کررہے ہیں۔جس سے ان کے قاتلانہ جذبات کا اظہار ہوتا ہے یا پھر ہو سکتا ہے کہ اس قتل سے انہی لوگوں کا تعلق بھی ہو۔اس لئے گوری کے قتل کے سلسلے میں اس طرح کے منفی پیغامات دینے والے ہر ایک ایک کی نشاندہی کرتے ہوئے پولیس کو خود ہی اپنے طور پر ان کے خلاف کیس درج کرکے انہیں جیل بھجوانا ضروری ہے۔بالفرض اگر ان کی طرف سے آنکھیں موند لی گئیں،توآج قتل کی حمایت کرنے والے کل خود ہی قاتلوں میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔اس لئے پولیس کوسب سے پہلے سوشیل میڈیا پر الگ الگ روپ میں دکھائی دینے والے قاتلانہ سوچ اور جذبات رکھنے والوں پر نشانہ سادھنا ہوگا۔اس کے ساتھ ہی گوری قتل کی تحقیقات اسی طرز پر نہیں ہونی چاہیے جیسے کہ کلبرگی قتل تحقیقات میں ہوا۔گوری کا قتل بنگلورو میں ہوا ہے۔پورے شہر میں سی سی ٹی وی ہونے کی وجہ سے اس کے ذریعے سراغ حاصل کرنا آسان ہے۔ریاست میں ترقی پسند وزیر اعلیٰ کے طور پر پہچانے جانے والے سدارامیا کی قیادت والی سرکار ہے۔اور اگر یہی حکومت قاتلوں کو پکڑنے میں ناکام ہوجاتی ہے تو پھر دوسری حکومتوں سے انصاف ملنے کی توقع کرنا مشکل بات ہے۔
ایک بات تو طے ہے کہ قاتلوں کا مقصد ایک فرد کو قتل کرنا نہیں ہے۔بلکہ سوچ اور فکر کو قتل کرنا ہے۔ اس ملک میں ترقی کے حق میں، غریبوں کے حق میں بات کرنے، سائنسی انداز میں سوچنے،تجزیہ کرنے، ملک میں بڑھتی ہوئی بنیاد پرست، فرقہ پرست،انتہاپسندوں کے خلاف آواز اٹھانے والے دل ودماغ رکھنے والوں کو قتل کرکے ملک کو صدیوں پیچھے کی طرف لے جانے کی یہ کوششیں ہیں۔اس وجہ سے قاتلوں کا پتہ لگاکر انہیں سزادلانے اورمستقبل کے بھارت کو بچانے کی ذمہ داری سدارامیا کی قیادت والی حکومت پر ہے۔
(بشکریہ؛ وارتھا بھارتی ، مورخہ 7/ ستمبر 2017، اُردو ترجمہ: ڈاکٹر محمد حنیف شباب ۔۔۔ ساحل آن لائن)
(مہمان اداریہ کے اس کالم میں دوسرے اخبارات کے ادارئے اوراُن کے خیالات کو پیش کیا جاتا ہے ، جس کا ساحل آن لائن کے ادارئے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)