محسن شیخ کے قتل پر عدالتی بیان سے ماہرین حیران
قانون پر گہری نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ محسن شیخ کے اہل خانہ کو چاہئے کہ وہ فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر یں ،سینئر وکیل فرحانہ شہا نے کہا کہ ’’ مذہب کی بنیاد پر کیا جانے والا جرم قابل معافی نہیں ہوسکتا اور وہ بھی قتل جیسا سنگین جرم جسے انجام دیتے وقت ملزم کو یہ اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا کررہا ہے‘‘، جمعیۃ علماء ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف عدالت عظمیٰ میں اپیل کرنے کیلئے تیار
ممبئی،17جنوری(ایجنسی) پونے کے انجینئر محسن شیخ کے قتل میں ملوث بھگوا تنظیم سے وابستہ جن 3؍ ملزمین کو ہائی کورٹ کی جسٹس مردو لا بھٹکر نے ضمانت پر رہا کیا ہے اور محسن کے قتل پر جو تبصرہ کیا ہے اس پر ماہرین قانون بھی حیران ہیں۔ ایک طرف جہاں انصاف پسند حلقوں میں اس فیصلہ پر شدید بے چینی پائی جارہی ہے۔ وہیں دوسری طرف ماہرین قانون کا خیال ہے کہ استغاثہ یا متاثرہ کے اہل خانہ کو یقینی طور پر اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنا چاہئے۔ 2؍ جون 2014ء کو پونے کے ہڑ پسر علاقے میں بھگوا تنظیم ہندو راشٹر سینا رضا کاروں نے اعلیٰ تعلیم یافتہ نواجون محسن شیخ پر بلوں اور ہاکی اسٹک سے حملہ کردیا تھا جس میں محسن شیخ جان بحق ہوگیا تھا جبکہ اس کا بھائی ریاض بری طرح زخمی ہوا تھا۔ اس بے رحمانہ قتل کے جرم میں پونے کی ہڑپسر پولیس نے 21؍ ملزمین کو گرفتار کیا تھا جن میں کلیدی ملزم دھننجے دیسائی بھی شامل ہے۔ گزشتہ روز قتل کے جرم میں گرفتار بھگوا تنظیم کے اراکین وجے راجندر گھمبیرے ، رنجیت شنکر یادو عرف گنیش اور اجے دلیپ لالگے کی درخواست ضمانت منظور کئے جانے کی انتہائی حیرت انگیز وجہ بیان کرتے ہوئے ہائی کورٹ کی جسٹس مردو لا بھٹکر نے یہ تبصرہ کیا تھا کہ ’’محسن شیخ کو انہوں نے کسی ذاتی دشمنی کے تحت قتل نہیں کیا بلکہ انہیں (ملزمین) مذہب کے نام پر مشتعل کیاگیا تھا۔
عدالت کے اس فیصلے اور تبصرے سے ماہرین قانون بھی حیرت زدہ ہیں۔ اس موضوع پر نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے سینئر وکیل یوسف مچھالا نے کہا کہ انہوں نے کورٹ کے فیصلہ کی کاپی کا مطالعہ نہیں کیا ہے لیکن ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں سے مطابق جو فیصلہ سنا یا گیا ہے وہ حیرت انگیز ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’کسی بھی ملزم کو جو قتل کے سنگین جرم میں گرفتار کیا گیا ہو، اس بنیاد پر ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ اسے مذہب کے نام پر مشتعل کیا گیا ہے۔‘‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مارنے والا جس چیز سے ماررہا ہے اور جس شدت کا مظاہرہ کررہا ہے ، وہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے کہ متاثرہ پر اس کا کیا اثر ہوگا۔ معروف قانون داں اور رکن پارلیمنٹ مجید میمن نے عدالت کے فیصلہ کو سراسر غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں اس عجیب و غریب فیصلے پر حیرت ہورہی ہے اور یہ کہ استغاثہ کو جلد ہی اس فیصلہ کو چیلنج کرنا چاہئے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’ کسی بھی جرم کو انجام دیتے وقت اگر کوئی ملزم اس بنیاد پر ضمانت کی درخواست حاصل کرنے کی کوشش کرے کہ اسے مذہب کے نام پر مشتعل کیا گیا تھا تو کیا یہ دلیل عدالت قبول کرے گی ۔ انہوں نے اس سلسلہ میں اہل خانہ کو بھی عدالت عظمیٰ سے فوری طور پر رجوع ہونے کا مشورہ دیا ہے۔
اس سلسلے میں سینئر وکیل فرحانہ شاہ کا بھی یہی کہنا تھا کہ مذہب کی بنیاد پر کیا جانے والا جرم قابل معافی نہیں ہوسکتا اور وہ بھی قتل جیسا سنگین جرم جسے انجام دیتے وقت ملزم کو یہ اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا کررہا ہے۔ دوسری جانب محسن کے ماموں شاہنواز شیخ نے نامہ نگار سے کہا کہ ’’ اگر اس طرح سے ملزمین کو ضمانت پر رہا کیا جاسکتا ہے تو کیا اس بات کی امید کی جاسکتی ہے کہ انتہائی بے رحمی سے قتل کرنے والا ان مجرمین کو عدالت سخت سزا دے گی۔ ملزمین کی ضمانت پر رہائی مقتول کے سے نا انصافی ہے۔‘‘ عدالت کے اس فیصلہ پر جمعیۃ علما ء مہاراشٹر کے صدر مولانا حافظ ندیم صدیقی نے انتہائی حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ محسن کے مقدمہ کی پیروی جمعیت نہیں کررہی تھی لیکن عدالت کے اس فیصلہ کے بعد جمعیت نے اس سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔