نوٹ بندی کے بعد مودی کا اگلا نشانہ ’’چیک بُک‘‘
نئی دہلی،21/نومبر (ایس او نیوز/ایجنسی) عوام کے ذہنوں میں گزشتہ سال نومبر سے پیدا شدہ تکالیف آج بھی تازہ ہیں جب وزیراعظم نریندر مودی نے ’’کالے دھن کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر اچانک اور حیرت انگیز طور پر نوٹ بندی کا اعلان کیا تھا جس کے نتیجہ میں ملک کے غریب، محتاج و مفلس طبقات سے لے کر دولت مند کارپوریٹ طبقہ بھی بری طرح متاثر ہوا تھا اور قومی معیشت کو بدترین نقصانات ہوئے تھے جس کے باوجود اس اقدام سے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ اس کربناک صورتحال کے اثرات ابھی پوری طرح ختم بھی نہیں ہوئے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوام پر اب ایک نئی آفت ٹوٹ پڑنے والی ہے۔ حکومت کے مطابق میں اب کیش لیس سماج (بلانقدی رقمی معاملتوں) کا آغاز ہونیے والا ہے۔ مودی حکومت ’’کیش لیس سوسائٹی‘‘ کے نام پر ڈیجیٹل معاملوں کے فروغ کیلئے مزید ایک تباہ کن قدم اٹھانے کی تیاری کررہی ہے اور اس بات کا قوی اندیشہ لاحق ہے کہ سب سے پہلے ’’چیک بُک سسٹم‘‘ برخاست کیا جاسکتا ہے۔ آل انڈیا ٹریڈرس کانفیڈریشن کے سیکریٹری جنرل پروین کھنڈیل وال نے بھی ایسا ہی اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس بات کا غالب امکان ہے کہ ڈیجیٹل معاملتوں کے فروغ کے لئے مستقبل قریب میں مرکز کی طرف سے چیک بُک کی سہولت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ بلانقدی معیشت کے فروغ اور مختلف ذرائع سے ڈیجیٹل معاملتوں کے استعمال میں تاجرین کی حوصلہ افزائی کے لئے آل انڈیا ٹریڈرس کانفیڈریشن (سی اے آئی ٹی) اور ماسٹر کارڈ کے مشترکہ زیراہتمام ’’ڈیجیٹل رتھ‘‘ کے آغاز کے موقع پر اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کھنڈیل وال نے کہا کہ ’’کرنسی نوٹوں کی طباعت پر حکومت 25,000 کروڑ روپئے خرچ کرچکی ہے جبکہ سکیورٹی اور منتقلی پر مزید 6,000 کروڑ روپئے خرچ ہوئے۔ مزید برآں ڈیبٹ کارڈ کے ذریعہ ادائیات پر بینک 1% اور کریڈٹ کے ذریعہ ادائیات پر 2% فیس چارج کرتی ہے چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ڈیجیٹل رقمی لین دین کو عام کرنے کی ترغیب کے طور پر بینکوں کو راست سبسڈی فراہم کرے تاکہ ری چارجیس کو مکمل طور پر برخاست کیا جاسکے‘‘۔ اب رہا سوال کہ چیک بُک پر پابندی عائد کرنا کیش لیس طریقہ کار کو عام کرنے میں کس حد تک معاون ہوسکتا ہے تو اس کا جواب یہی ہے کہ اس سے بڑی حد تک مدد مل سکتی ہے کیونکہ اکثر تجارتی معاملتیں چیکس کے ذریعہ ہی ہوا کرتی ہیں۔ فی الحال 95% سے زائد معاملتیں نقدی اور چیکوں سے کی جاتی ہیں اور نوٹ بندی کے بعد جب سے رقمی معاملتوں میں کمی ہوئی ہے، چیک معاملتوں میں مزید اضافہ ہوا ہے، بالخصوص نوٹ بندی کے بعد ڈیجیٹل رقمی معاملتوں کے ملے جلے رجحانات دیکھے گئے ہیں، لیکن نوٹ بندی سے پہلے کے مقابلے کیش لیس ادائیات میں مجموعی طور پر بھاری اضافہ ہوا ہے۔ نوٹ بندی سے قبل ملک میں 17.9 لاکھ کروڑ روپئے مالیتی کرنسی نوٹ زیرگشت تھے اور نوٹ بندی کے بعد اب بھی اس کا 91% حصہ یعنی 16.3 لاکھ کروڑ روپئے کے نوٹس زیرگشت ہیں۔ ریزرو بینک آف انڈیا کے مطابق گزشتہ سال نومبر سے اس سال ستمبر تک کیش لیس معاملتوں میں 31% اضافہ ہوا ہے۔ اس سال ستمبر میں ڈیجیٹل معاملت 877 ملین تک پہونچ گئی تھیں جو گزشتہ سال ایک ارب کے ساتھ اپنے عروج پر تھیں۔ نوٹ بندی سے قبل اگر 100 ڈیجیٹل معاملتیں کی جارہی تھیں تو نوٹ بندی کے بعد یہ تعداد 300 تک پہونچ گئی ہے۔