معاشی طورپرکمزوراعلیٰ ذات کے لوگوں کوریزرویشن دینے سے متعلق بل راجیہ سبھا میں بھی منظور، جسٹس احمدی نے کہا، یہ سپریم کورٹ کےفیصلے کی روح کے خلاف ہے
نئی دہلی 10/جنوری (ایس او نیوز ) عام زمرے کے معاشی طور پر پسماندہ خاندانوں کو تعلیمی اداروں اورسرکاری نوکریوں میں 10 فیصد ریزرویشن دینے سے متعلق تاریخی 124 ویں آئینی ترمیمی بل 2019 پر کل دیر رات پارلیمنٹ کی مہر لگ گئی۔ راجیہ سبھا میں اس بل پر تقریبا 10 گھنٹے تک جاری بحث کے بعد اسے سات کے مقابلے 165 ووٹوں سے منظورکیا گیا۔ لوک سبھا اس بل کو پہلے ہی منظورکرچکی ہے۔
برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی اور اپوزیشن کی تقریبا تمام جماعتوں نے بل کی حمایت کی لیکن دراوڑمنیتركژگم (ڈی ایم کے)، مارکسی کمیونسٹ پارٹی اور بھارتی کمیونسٹ پارٹی نے بل کو سلیکٹ کمیٹی میں بھیجنے کی تجویز پیش کی، جسے 18 کے مقابلے 155 ووٹوں سے مسترد کر دیا گیا۔
کانگریس کے ساتھ ہی سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، تیلگو دیشم پارٹی اورترنمول کانگریس نے بل کی حمایت کی جبکہ اے آئی ڈی ایم کے، راشٹریہ جنتا دل اورعام آدمی پارٹی نے اس کی مخالفت کی۔
مایاوتی نے بل کو کہا، بی جے پی کا سیاسی ہتھکنڈہ
بی ایس پی سپریمو مایاوتی نے مالی طور پر کمزور اشرافیہ کمیونٹی کے لوگوں کو ریزرویشن دینے کے مودی حکومت کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے ،اس کو دیر سے اٹھایا گیا قدم لیکن ایک انتخابی اسٹنٹ بتایا ہے۔ مایاوتی کی طرف سے منگل کو جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک میں غریب اشرافیہ کو بھی ریزرویشن کی سہولت دینے کی بی ایس پی کی دیرینہ مانگ کو آدھے ادھورے من اور نامکمل طریقے سے قبول کیے جانے کے باوجود وہ اس کا خیر مقدم کرتی ہیں۔
حالانکہ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر حکومت یہ فیصلہ پہلے کرتی تو بہتر ہوتا۔ بی ایس پی سپریمو نے کہا،’ لوک سبھا انتخابات سے پہلے لیا گیا یہ فیصلہ ہمیں صحیح نیت سے لیا گیا فیصلہ نہیں بلکہ انتخابی اسٹنٹ لگتا ہے۔ سیاسی چھلاوہ لگتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر بی جے پی اپنی مدت ختم ہونے سے ٹھیک پہلے نہیں بلکہ اور پہلے یہ فیصلہ کرتی تو اچھا ہوتا۔ ‘
قابل ذکر ہے کہ غریب اشرافیہ کو 10 فیصد ریزرویشن دینے کے مودی حکومت کے فیصلے کو سوموار کو کابینہ کی منظوری ملنے کے بعد اس کو عمل میں لانے کے لیے حکومت نے منگل کو آئین ترمیمی ایکٹ لوگ سبھا میں پیش کر دیا۔ مایاوتی نے ایس سی ایس ٹی اور او بی سی کے لوگوں کو مل رہے ریزرویشن کے پرانے سسٹم کے تجزیے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان کمیونٹی کی بڑھی ہوئی آبادی کے حساب سے ان کو مناسب ریزرویشن دینے کی سخت ضرورت ہے۔
واضح ہو کہ مرکز کی مودی حکومت نے سوموار کو اقتصادی طور پر پسماندہ اشرافیہ کمیونٹی کے لیے سرکاری نوکریوں میں 10 فیصد ریزرویشن کو منظوری دے دی ہے۔انڈین ایکسپریس کے ذرائع نے بتایا کہ 2019 کے لوک سبھا انتخاب سے پہلے سرکار نے اشرافیہ کمیونٹی کے ان لوگوں کے لیے نوکریوں میں ریزرویشن کا اعلان کیا ہے جن کی سالانہ آمدنی 8 لاکھ روپے سے کم ہے۔
غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ نے سرکاری نوکریوں میں ذات کی بنیاد پر ریزرویشن کے لیے 50فیصد کی حد طے کر رکھی ہے۔این ڈی ٹی وی کی ایک خبر کے مطابق، اشرافیہ کو سرکاری نوکری اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے 10 فیصدی ریزرویشن ملے گا،یہ ریزرویشن 50فیصدی کی حدسے الگ ہوگا۔
دس فیصد ریزرویشن دینے کا قدم سپریم کورٹ کے فیصلے کی روح کے خلاف: جسٹس احمدی
عام انتخابات سے چند ماہ پہلے اور پارلیمنٹ کے آخری دن معاشی طور پر کمزور جنرل کیٹگری کے افراد کو دس فیصد ریزریشن دینے کا بل پارلیمنٹ میں پیش کرنا اپنے آپ میں واضح اشارہ ہے کہ اس کا مقصد اس کیٹگری کے لوگوں کو راحت پہنچانا نہیں ہے بلکہ عام انتخابات کی تیاری ہے ۔وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے جیسے یہ بل لوک سبھا میں پاس ہو گیا ویسے ہی راجیہ سبھا میں بھی منظور ہو جائے گا، لیکن اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا یہ سپریم کورٹ میں ٹک پائے گا کیونکہ اس دس فیصد ریزرویشن کے بعد وہ حد پار ہو جائے گی جو سپریم کورٹ نے 50 فیصد سے زیادہ ریزرویشن نہ دینے کی حد طے کی ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق جسٹس اے ایم احمدی کے مطابق حکومت کا یہ قدم سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے۔
واضح رہے سابق جسٹس اے ایم احمدی 1992 میں منڈل کمیشن پر فیصلہ دینے والے جج حضرات میں سے ایک ہیں اور ان جج حضرات نے ریزرویشن کی حد 50 فیصد مقرر کی تھی ۔ سابق جسٹس اے ایم احمدی نے انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی جے پی کی قیادتت والی حکومت کا یہ قدم ریزرویشن پر دیئے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے برعکس ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ حد بڑھائی نہیں جا سکتی اور یہ قدم صرف انتخابی مقاصد کے تحت لیا گیا ہے، انہوں نے کہا یہ پوری طرح صاف ہے کہ ’’آئین کی شق 16 کے مطابق کسی کا پسماندہ ہونا معاشی بنیاد پر بالکل طے نہیں ہو سکتا ۔ اسی کے مد نظر ہم نے اکثریت والے فیصلے میں اس بات کو طے کیا تھا ‘‘۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ مانتے ہیں کہ حکومت کا قدم سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کے خلاف ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس سارے معاملہ کی گہرائی سے دیکھنےکی ضرورت ہے کیونکہ یہ ایک انتہائی اہم آئینی فیصلہ ہے ۔ واضح رہے کئی بڑے قانونی ماہرین کی بھی یہی رائے ہے کہ حکومت کا یہ قدم سپریم کورٹ کے فیصلے کےخلاف ہے۔