کہ اکبر نام لیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔!ایم ودود ساجد

Source: S.O. News Service | Published on 22nd October 2018, 11:43 AM | اسپیشل رپورٹس |

میری ایم جے اکبر سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔میں جس وقت ویوز ٹائمز کا چیف ایڈیٹر تھا تو ان کے روزنامہ Asian Age کا دفتر جنوبی دہلی میں‘ہمارے دفتر کے قریب تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب وہ 2003/04 میں شاہی مہمان کے طورپرحج بیت اللہ سے واپس آئے تو انہوں نے مکہ کانفرنس کے تعلق سے ایک طویل مضمون تحریر کیا تھا۔اس مضمون کا اردو ترجمہ میں نے اپنی فیچر ایجنسی VNI سے دوقسطوں میں جاری کیا تھا جسے ملک بھر کے بیشتراردو روزناموں نے شائع کیا تھا۔۔۔۔اظہار تشکر کے طور پر انہوں نے ہرے رنگ کے موٹے مارکرسے اپنے ہاتھ سے تحریر نسبتاً ایک طویل خط مجھے بھیجا تھا۔۔۔۔انسان کے ساتھ ایک عدد شیطان مستقل لگا ہوا ہے۔کچھ بھروسہ نہیں کہ کب وہ  اپنے داؤ میں کامیاب ہوجائے اور انسان اس کے نرغہ میں آکر وہ کر بیٹھے جو اسے نہیں کرنا چاہئے۔ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ قلم کار کے تحریری افکار سے اس کی ذاتی زندگی کا مکمل اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ میراخیال یہ ہے کہ مکمل نہ سہی کچھ اندازہ توضرورلگایا جاسکتا ہے۔برخلاف مقرر کے کہ اس کے قول اور عمل میں ہمالیائی تضاد ممکن ہے۔

 می ٹو۔۔۔یا 'میں بھی'  کے نام سے جو ٹویٹرمہم چل رہی ہے در اصل اس کی ابتدا 2006میں امریکہ میں ہوئی تھی جب ایک سماجی کارکن  ترانہ بروک نے جنسی زیادتی کا اپنا پرانا تجربہ بیان کیاتھا۔اس کے بعد اس تحریک نے شکل بدلی اور اصلاح کار علماء کو چڑانے کے لئے پاکستان کے اسلام آباد میں ایک مظاہرہ ہوا جس میں بے حیا (مسلم) خواتین نے ہاتھوں میں اردو میں لکھے ہوئے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔ان پر لکھا تھا’میرا جسم میری مرضی‘۔اس طرح کے مظاہرے لندن اور نیویارک وغیرہ میں بھی ہوئے۔

2017میں پھر 'می ٹو' نے سر ابھارا اورامریکی اداکارہ الیسا ملانو نے ٹویٹ کرکے اپنے ساتھ ہونے والی چھیڑ خانی کے واقعات بیان کئے۔اس نے کئی بڑے امریکی چہروں کو داغدار کیااور ساتھ ہی دنیا بھر کی ایسی خواتین سے‘ جو زندگی کے کسی بھی پڑاؤ پر چھیڑ خانی یا جنسی زیادتیوں کا شکار ہوئی ہوں‘سامنے آنے کو کہا۔۔۔اس نے ہالی ووڈ پروڈیوسر ہاروے وینسٹائن کے خلاف جیسے ہی الزام عاید کیا امریکہ کی دیگر 70خواتین بھی وینسٹائن کے خلاف میدان میں آگئیں۔ 

ہندوستان میں پہلا 'می ٹو' ٹویٹ جاری کرنے کا سہرا اداکارہ تنو شری دتہ کے سر جاتا ہے۔انہوں نے فلم اداکار ناناپاٹیکرکو موردالزام ٹھہرایا۔اس کے بعد آلوک ناتھ بھی چپیٹ میں آگئے۔پاٹیکر اور ناتھ دونوں تقریباً بڑھاپے کی زندگی گزار رہے ہیں۔اس کے بعداداکارہ سلونی چوپڑانے ٹویٹ کیا اور A-4سائز کے 8 صفحات (14پوائنٹ سائز ) پر مشتمل ایک تفصیلی مضمون لکھ کراسے اس ٹویٹ سے منسلک کردیا۔شاید اس سلسلہ کا یہ اب تک کا سب سے بڑا مضمون ہے جو بہت ہی کم لوگوں نے پورا پڑھاہوگا۔سلونی چوپڑانے کیا نہیں لکھا۔وہ بھی لکھ دیا جو شایدایک پیشہ وربھی لکھتے ہوئے تکلف کرے۔کم سے کم وہ عورت تو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی ایسی منظر کشی نہیں کرسکتی جسے لفظ عصمت کی ع کا بھی ادراک ہو۔۔۔مجھے خود حیرت ہے کہ ایک عورت نے یہ سب کیسے لکھ دیا اور میں نے اسے پڑھ کیسے لیا۔۔۔گو کہ میں بھی ان 8 صفحات میں سے صرف دو صفحات ہی پڑھ سکا۔ان دو صفحات میں ہی میں نے عورت کا وہ روپ بھی دیکھ لیا جس کی مثال دینے کے لئے لفظ فاحشہ بہت ہی ذی احترام لگ رہا ہے۔۔۔۔

سلونی چوپڑا نے فلم انڈسٹری کے تین مشہور مردوں پر الزامات عاید کئے ہیں۔ان میں سر فہرست ساجد خان ہیں۔اس کے بعد زین درانی اور پھر وکاس بہل کا نمبر ہے۔مضمون کا بڑا حصہ ساجد خان کے کارناموں پر مشتمل ہے۔ان کے کارناموں کو بیان کرنے کے لئے سلونی نے جو کچھ لکھا ہے اسے پڑھ کر مجھے ساجد خان اور زین درانی جیسے خدا بیزاراورنام کے مسلمان بھی کم برے لگنے لگے۔۔۔۔۔

یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ می ٹو کی اس مہم میں شامل فلم انڈسٹری اور صحافت سے وابستہ خواتین کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنا درست نہ ہوگا۔لہذا ایم جے اکبر پر الزام لگانے والیوں کے کردار پر شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔یعنی ایم جے اکبر انتہائی بدکردار ہیں؟ آج ہی میں نے صحافی عزیز برنی Aziz Burney کی ایک پوسٹ پر دوسرے قلم کارفاروق ارگلی Farooq Argali کا تبصرہ دیکھا۔انہوں نے لکھا ہے کہ ایک بار جب عزیز برنی اور وہ خود رمضان میں ایم جے اکبر کے گھر گئے تو موخرالذکر نے روزہ دار ہونے کے باوجود کس طرح اِن دونوں کی باصرارضیافت کی تھی۔فاروق ارگلی کے تبصرہ سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہ ہوگا کہ ایم جے اکبر کم سے کم اِن دونوں 'بزرگانِ ملت' سے تو زیادہ اچھے اور با عمل مسلمان ہیں۔میں اس موضوع پر اور خاص طورپر ایم جے اکبر کے تناظر میں ہر گز نہ لکھتا اگر ایک مسلم خاتون صحافی بھی ایم جے اکبر کے خلاف 'می ٹو' کی اس مہم میں شامل نہ ہوجاتی۔....1998میں فرانس‘تیونیشیا اور لیبیا کے اس دورہ میں وہ بھی شامل تھی جس کا میں اور میرے ساتھی صحافی تحسین عثمانی Tahsin Usmani بھی ایک حصہ تھے۔اس خاتون کے ٹویٹ کے بعد مجھے ایم جے اکبر پر ترس آنے لگا۔۔۔اب دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں۔۔۔۔یا تو ایم جے اکبر جنسی طور پر انتہائی بد ذوق ہیں یا پھر انتہائی باکردار ہیں۔۔۔۔تیسرے کسی وصف سے میں انہیں متصف نہیں کرسکتا۔۔۔(میں نے یہ الفاظ صورت حال کی سنگینی اور حساسیت کو ظاہر کرنے لئے بدرجہ مجبوری استعمال کئے ہیں)...

اِس موقع پر مجھے حضرت یوسف علیہ السلام کی زبان پر جاری ہونے والا کلامِ خداوندی یاد آتا ہے۔۔۔قرآن پاک کے 13ویں پارہ کی ابتداء یوسف علیہ السلام کی زبانی انسانی کمزوری کے اِس اعتراف سے ہوتی ہے: ۔۔۔۔۔

وما ابرئی نفسی ان النفس لامارۃ بالسوء الاما رحم ربی‘۔۔۔۔۔

یعنی "میں اپنے نفس کی پاکیزگی بیان نہیں کرتا۔بے شک نفس تو برائی پر ابھارنے والا ہے۔مگر یہ کہ میرا پروردگار ہی اپنا رحم کرے۔"۔۔۔۔یہ ترجمہ مولانا محمد جوناگڑھی کے ترجمہ کی اس تلخیص سے لیا گیا ہے جو مولانا فتح محمد جالندھری نے کی ہے۔حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ تو بہت سوں نے پڑھا ہوگا۔قرآن پاک کے اس فرمان کی روشنی میں ہرانسان اپنی تخلیقی صفت کے اعتبار سے نفسِ امّارہ لے کر پیدا ہوتا ہے۔بس اس نفس امارہ کا حملہ انبیاء اور ان پر نہیں ہوتا جنہیں اللہ اپنے خاص رحم وکرم سے محفوظ رکھے۔قرآن پاک مردوعورت کے اختلاط کی وضاحت کے ساتھ ممانعت کرتا ہے۔۔۔۔ایک طرف جہاں مردوں کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے اورشرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے وہیں پردہ کے ذیل میں عورتوں کو بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھنے اور شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔۔۔یہاں تک کہ باپ کو بھی جوان بیٹی کی خواب گاہ میں داخل ہونے یا دونوں کو ایک کمرہ میں کسی تیسرے کے بغیر جمع ہونے کو منع کیا گیا ہے۔۔۔

فلمی میدان کوئی متقی اور پرہیزگار لوگوں کا میدان نہیں ہے۔تفصیل لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔اس دور کا ہر فرد اس سے واقف ہے۔مردو وعورت کا ایک دوسرے کو کھلے عام برہنہ گالیاں دینا تو بہت چھوٹی بات ہے۔اس کے علاوہ دنیا کی تمام سماجی لعنتیں اِس فلمی دنیا میں عام ہیں۔پردہ پر جو نظر آتا ہے فلمی دنیا اس سے بالکل مختلف ہے۔۔۔۔۔

لیکن جہاں تک صحافتی دنیا کا سوال ہے تویہ سن کر حیرت ہوتی ہے کہ ایم جے اکبر جیسا جہاندیدہ ‘سلجھا ہوا اوراتنا مقبول ومشہور صحافی بھی ایسی حرکتیں کرسکتا ہے۔اخبارات کے دفتراپنی ساخت اور اپنے کام کی نوعیت کے اعتبار سے ایسی حرکتوں کے لئے موزوں اور محفوظ جگہ نہیں ہوتے۔۔۔پھر اگرنیک سیرت خواتین یا لڑکیوں کو ایک "رنگین مزاج" یا جنسی مریض ایم جے اکبر سے چھٹکارا مقصود ہوتا تو اسی دہلی میں انڈین ایکسپریس‘ٹائمز آف انڈیااور ہندوستان ٹائمز جیسے بڑے اخبارات بھی موجود ہیں۔اور جس زمانہ کا ذکر ہے اس زمانہ میں تو پائنیر‘اسٹیٹس مین اور پیٹریاٹ جیسے انگریزی کے بڑے اخبار بھی جاری تھے۔اس سلسلہ میں کسی صاحب کا ایک تازہ ویڈیو آیا ہے۔انہوں نے بہت اچھے انداز میں اس مہم کے قانونی اور اخلاقی جواز پر بات کی ہے۔۔۔جو لوگ دیکھنا چاہیں وہ یو ٹیوب پر  #MeToo, a tool of extortion ٹائپ کرکے یہ ویڈیو دیکھ سکتے ہیں ۔۔۔

ایم جے اکبر نے وزارت سے استعفی دیدیا ہے۔اس سے پہلے انہوں نے الزام لگانے والی پہلی خاتون کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ بھی قائم کرادیا تھا۔متعلقہ عدالت نے اس سلسلہ میں سماعت کی تاریخ بھی مقررکردی ہے۔ایم جے اکبر کو جس طرح نشانہ بنایا گیا اور پھر جس طرح سیاسی جماعتوں نے بھی ان کے خلاف مورچہ کھولا اس سے یہی اندازہ ہوا کہ مخالفانہ مہم بی جے پی کے وزیر کے خلاف نہیں بلکہ ایم جے اکبر نامی ایک مسلمان کے خلاف چھیڑی گئی ہے۔اب سنا ہے کہ ایڈیٹرزکی ایک تنظیم ایڈیٹرز گلڈ نے ایم جے اکبر سے اپیل کی ہے کہ وہ الزام لگانے والی خاتون صحافی کے خلاف مقدمہ واپس لے لیں۔میں بہ حیثیت صحافی اس سلسلہ میں ایم جے اکبر کے ساتھ ہوں۔اب جبکہ انہوں نے وزارت سے بھی استعفی دیدیا ہے اور اُس صورت میں دیا ہے کہ جب ان کی پارٹی نے ان کا ساتھ نہیں دیا تو انہیں چاہئے کہ وہ مقدمہ کو اس کے منطقی انجام تک پہنچائیں۔ ۔۔۔ہمیں یہ جاننے میں دلچسپی ہے کہ کیا واقعی ایم جے اکبر اتنے بدکردار ہیں ۔۔۔جس ملک میں مرد مرد کے ساتھ اور عورت عورت کے ساتھ فحش کاری کا 'قانونی اور آئینی' لائسنس حاصل کرلے اور جس ملک میں غیر مرد کے ساتھ ہم بستری کو عدالت عظمی شادی شدہ عورت کا بنیادی حق قرار دیدے'  اس ملک میں 20 سال بعد ایم جے اکبر کے ساتھ کام کرنے والی خواتین کا ان کے خلاف چھیڑ خانی کا الزام عاید کرنا کسی دوسرے سیارہ کا معاملہ معلوم ہوتا ہے۔۔۔۔

ایک نظر اس پر بھی

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...

اترکنڑا میں جاری رہے گی منکال وئیدیا کی مٹھوں کی سیاست؛ ایک اور مندر کی تعمیر کے لئے قوت دیں گے وزیر۔۔۔(کراولی منجاؤ کی خصوصی رپورٹ)

ریاست کے مختلف علاقوں میں مٹھوں کی سیاست بڑے زورو شور سے ہوتی رہی ہے لیکن اترکنڑا ضلع اوراس کے ساحلی علاقے مٹھوں والی سیاست سے دورہی تھے لیکن اب محسوس ہورہاہے کہ مٹھ کی سیاست ضلع کے ساحلی علاقوں پر رفتار پکڑرہی ہے۔ یہاں خاص بات یہ ہےکہ مٹھوں کے رابطہ سے سیاست میں کامیابی کے ...