تین طلاق پر مجوزہ قانون شریعت میں مداخلت ، حکومت اگر خواتین کے مسائل کو حل کرنا چاہتی ہے تو بورڈ سے مشورہ کرے : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
نئی دہلی 3دسمبر ( ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا)آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری و ترجمان مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ حکومت نے ’مسلم ویمن پروٹیکشن آف رائٹس آن میریج‘ کی تفصیلات تو واضح نہیں کی ہے لیکن حکومت کی طرف سے یہ بات آئی ہے کہ وہ طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قرار دے گی اور اس کی وجہ سے شوہر کو تین سال جیل کی سزا ہوگی۔ انہوں نے جاری اپنے پریس نوٹ میں کہا ہے کہ یہ مجوزہ قانون شریعت میں مداخلت بھی ہے اور عورتوں کے لئے نقصاندہ بھی۔ تین طلاق دینا اسلام میں ناپسندیدہ ہے اور مسلم پرسنل لابورڈ ایسے واقعات کوکم کرنے کے لئے مسلسل اصلاح معاشرہ اور تفہیم شریعت کی تحریک چلا رہا ہے ، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ بہرحال یہ مذہبی مسئلہ ہے۔ تین طلاق کے واقعات کوکس طرح روکا جائے اور اس پر شوہر کو تنبیہ کا کیا طریقہ ہو؟ اس سلسلہ میں حکومت کو مسلمانوں کے معتبر مذہبی قائدین بالخصوص آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ سے مشورہ کرنا چاہئے تاکہ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے اس کا حل ڈھونڈا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ طلاق دینے والے شوہر کو تین سال کے لئے جیل بھیج دینا خود عورتوں کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ اگر مطلقہ کے بچے ہوں توان کے نفقہ کی ذمہ داری اسی مرد پرہے، اگر وہ جیل چلا گیا توان بچوں کی کفالت کس طرح ہوگی؟ اس کا دوسرانقصان یہ ہوگا کہ جولوگ طلاق دینا چاہتے ہیں ،وہ طلاق تو نہیں دیں گے؛ لیکن یوں ہی بیوی کو لٹکا کر رکھیں گے۔ نہ اس کو ازدواجی حقوق مل سکیں گے اور نہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے کے لئے آزاد رہ سکیں گے۔
مولانا خالد سیف اللہ نے کہا کہ اس کے علاوہ اگر حکومت سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کے مطابق تین طلاق کو غیر معتبر قرار دیتی ہے تو پھر مرد کو سزا دینا بے معنی ہوگا۔ کیوں کہ جب طلاق پڑی ہی نہیں تو پھر سزا کس بات کی؟ اوریہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ اگر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کے مطابق طلاق کو بالکل غیر معتبر قرار دیا گیا تو عورت سخت دشواری میں پڑ جائے گی۔ کیوں کہ قانون کی نظر میں وہ طلاق دینے والے مرد کی بیوی سمجھی جائے گی اور مسلم سماج اس کو بیوی تسلیم نہیں کرے گا، اس سے بڑی پیچیدگی پیدا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت واقعی تین طلاق دی جانے والی خواتین کے مسائل کو حل کرنا چاہتی ہے تواسے مسلم پرسنل لابورڈ ، مذہبی تنظیموں اور مسلم سماج کی معتبر مذہبی شخصیتوں سے مشورہ کرنا چاہئے اور عجلت میں کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہئے جس سے دستور کے تقاضے مجروح ہوں اور مسلمانوں کے مذہبی حقوق میں مداخلت کی صورت پیدا ہو۔