منگلورو میں بجرنگ دل کارکن راجیش قتل کیس کے 3ملزموں کو عدالت نے کیا بری؛ معصوم اور بے قصوروں کو پھنسانے کے لئے پولس کے ساتھ سی آئی ڈی نے بھی کیا کام
منگلورو:24/ارچ (ایس او نیوز)بجرنگ دل کے کارکن راجیش پجاری قتل کے الزام کا سامنا کررہے ملور ، دیملے کے مکین ارشاد، عمران اور حسین کو دکشن کنڑا ضلع اور تیسری اضافی عدالت نے سنیچر کو باعزت بری کرتے ہوئے انہیں رہا کردینے کے نتیجے میں گذشتہ چار برسوں سے معصوم نوجوانوں کو راحت مل گئی ہے اور نوجوانوں کوپولس تھانہ ، جیل ، کورٹ کے چکر سے نجات مل گئی ہے۔
واقعہ کی تفصیل : بنٹوال کے مکین ، بجرنگ دل کے کارکن اور پیشہ کے طورپر آٹو ڈرائیور راجیش پجاری کو 21مارچ 2014کو شرپسندوں کی ایک ٹیم نے قتل کر دیا تھا شدید زخمی راجیش پجاری اسپتال لے جانے کے دوران ہلاک ہوگیا تھا۔ واقعہ کو لےکر بنٹوال پولس تھانے میں قتل کا کیس درج ہواتھا مگر قاتل کون ہیں وضاحت نہیں ہوئی تھی۔
راجیش پر اقبال نامی نوجوان کو قتل کرنے کا الزام تھا،شبہ جتایا گیا تھا کہ اسی معاملے کو لے کر بدلے کےطورپر راجیش کا قتل کیا گیا ہے۔ راجیش کی بیوی کی طرف سے داخل کردہ شکایت کے مطابق پولس نے کیس درج کرلیا مگر قاتل کون ہیں بتانا ممکن نہیں ہوسکا تھا۔ 10دن گزرنے پر بھی ملزمان کی شناخت نہیں ہوسکی تو آخر کار پولس نے 31مارچ 2014کو ملور کے معصوم3 نوجوانوں کو گرفتار کرکے جیل میں قید کردیا۔ واقعہ کو لے کر ڈی وائی ایف آئی نے نوجوانوں کو معصوم قرار دیتے ہوئے کئی مرتبہ احتجاج بھی کیا تھا۔ حکومت نے معاملے کو سی آئی ڈی کے حوالے کیاتو سی آئی ڈی نے بھی بنٹوال شہری تھانہ پولس کی گھڑی ہوئی کہانی کو مزید رنگ دے کر ہاتھ دھولیا۔
پراسی کیوشن نے معاملے کو لے کر 24گواہوں کو عدالت میں حاضر کرنےکے علاوہ 47صفحات کی دستاویزات بھی سونپی تھی ۔ مگر گواہوں کی کمی ، پیچیدگیوں سے بھرے ہوئے بیانات، محاکاتی اور واقعاتی ثبوتوں کی کمی وغیرہ کو عدالت نے غور کیا اور ملزموں کو بے قصور قرار دیتے ہوئے فیصلہ صادرکیا۔ ملزموں کی طرف سے منگلورو کے نوجوان وکیل ششی راج راؤ کاوؤر نے پیروی کی۔
پولس کی گھڑی ہوئی کہانی : مکمل اور شفافیت کے ساتھ جانچ کرنا پولس کی ذمہ داری تھی لیکن پولس نے اس معاملے میں کہانی کو گھڑکر تیارکیا۔ پولس کی گھڑی ہوئی کہانی کو سی آئی ڈی کامان لینا تعجب ہے۔ پولس کی کہانی کے مطابق راجیش قتل کا کلیدی ملزم حسین پربجرنگ دل لیڈر کو قتل کرنے کے لئے کسی رئیس سے سپاری لینے کا الزام لگایا تھا۔ جب کہ حسین گھر گھر جاکر بیڑی کا پان کترنے والی قیچیوں کو تیز کرنے کا کام کرنے کے علاوہ فینائل وغیرہ بیچاکرتاتھا۔ گھر میں بوڑھے ماں باپ، چھوٹا معصوم بچا اور بیوی کے ساتھ اپنی دشوار زندگی گزاررہا تھا ۔ لیکن پولس کے مطابق مذہبی دشمنی کے لئے قتل کرنے والا خطرناک کریمنل ماناگیا۔
جیل میں کھانا پینا بند: جب قتل ہواتھاتو تینوں ملزم غیر شادی شدہ تھے، تین چار مہینے بے کار جیل میں گذارنے کے بعد گذشتہ سال حسین کی شادی ہوئی ، جیل میں قید ملزموں کے خلاف راؤڑی شیٹر کیس درج کرنےکی دھمکی دینےسے خوف کھائے نوجوانوں نے جیل میں اپنا کھانا پینا بند کردیا تھا جو اخباروں کی زینت بنا۔
قاتلوں کا پتہ لگائیں: بے قصور رہا ہوئے عمران کی والدہ شاہدہ نے اخبار نویسوں سے بات کرتےہوئے کہاکہ ہمارے نوجوانوں نے راجیش کا قتل نہیں کیا ہے، پولس نے انہیں ملزم بنا کر جیل میں بند کردیا ہے، گذشتہ چاربرسوں سے ہم لوگ پولس تھانہ ، کورٹ ،جیل کے چکر کاٹ کاٹ کر بیزار ہوچکے ہیں، کسی اور کے ساتھ ایسی ناانصافی نہ ہو، میرے بیٹے کو آج بھی ٹھیک سے کام کرنا دشوار ہورہاہے، جس دن مزدوری کے لئے جاتا ہے اسی دن اس کے ہاتھ پیر درد کرنے لگتے ہیں۔ اب گھر کاگزار ہ ہوبھی تو کیسے ؟۔ پولس کا ظلم بیان سےباہر ہے۔ اب ہمارے بچے بے قصور بری ہوگئےہیں ہمیں خوشی ہے ، ہمارے ساتھ ڈی وائی ایف آئی اور اس کے صدر منیر کاٹی پالیا نے کافی ساتھ دیا ہمارے لئے کوشش کی ہے۔ ہمارے بچوں کے حق میں جن وکیلوں نے پیروی کی ہے ہم انہیں بھول نہیں سکتے۔ اب پولس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ راجیش کے اصلی قاتلوں کا پتہ لگائیں اور انہیں سزا دیں۔
عدالت میں پیروی کرنے والے وکیل ششی راج راؤ کاوؤر نے کہاکہ میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میرے موکل معصوم اور بے قصور ہیں ، پولس نے انہیں ملزم بنایا ہے، سی آئی ڈی پولس نے بھی پولس کی کہانی کو ہی آگے بڑھایا تھا۔ قریب تین چار مہینوں تک بے کار میں جیل میں بندرہے۔ آخر کار ہائی کورٹ سے ضمانت حاصل کرکے باہر نکلے ۔ مگر اس وقت انہیں باہر کی دنیامیں بھی اندھیرا چھایاہواتھا۔ محنت مزدوری کے بعد بھی جینا دوبھر تھا۔ سچائی کیا ہے مجھے اس کا اچھی طرح احساس تھا جس کی وجہ سے میں نے موکلوں کو رہاکرنے کے لئے کورٹ میں اپنا دعویٰ پیش کیاتو اس کا نتیجہ حاصل ہواہے۔ عدالت پر اعتماد قائم اور باقی رکھنے کےلئے ایسے فیصلے ترغیب دیتے ہیں۔ عدالتی فیصلے سے مجھے بے حد خوشی ہوئی ہے۔
واقعہ کو لے کر ڈی وائی ایف آئی کے صدر منیر کاٹی پالیا نے خیال ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں معلوم تھا کہ ارشاد، عمران ، حسین معصوم ہیں۔ اسی لئے ہم نے ڈی سی دفتر چلو، ڈی سی دفتر کے سامنے دن رات دھرنا دیا تھا، ضلع نگراں کار وزیر رماناتھ رائی کے گھر کا گھیراؤ بھی کیا تھا اور بنٹوال شہری پولس تھانہ کے روبرو بھوک ہڑتال جیسے کئی ایک جدوجہد کی تھی۔ اسی دوران حکومت نے معاملے کو سی آئی ڈی کو سونپا۔ سی آئی ڈی نے بھی ناانصافی کی۔ حال ہی میں جب وزیر اعلیٰ سدرامیا اڈیار تشریف لائے تھے تو حقیقی ملزموں کو گرفتارکرنےکاہم نےمطالبہ کیا تھا۔ بہر حال عدالت پر ہمیں حددرجہ اعتماد تھا جس کانتیجہ سامنے ہے ۔ یہ ایک سچ کی جیت ہے ، انصاف کی جیت ہے۔